Maktaba Wahhabi

265 - 829
ملاحظہ ہو!صحیح بخاری۔أبوداؤد، سنن نسائی) جواب: بلاشبہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع حجت ہے، مگر اذانِ عثمانی پر صحابہ کا اجماع ثابت نہیں۔ ورنہ حضرت علی۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ۔ امام زہری ، امام حسن بصری; جیسے فقہاء تابعین اس کو بدعت اور مُحدث نہ گردانتے اور امام شافعی رحمہ اللہ جیسے مجتہد اس کے خلاف رائے قائم نہ کرتے اور نہ علمائے اہل مغرب اور شیخ ابن ناصر جیسے فحول علماء اس کو نظر انداز کرتے( جیسا کہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے) لہٰذا ہمارے نزدیک اس عبارت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ امام بخاری، امام أبوداؤد، اور امام نسائی کے عہد میں اذانِ عثمانی کو قبول عام ہو گیا تھا۔ چنانچہ صاحب’’ المنھل العذب المورود شرح ’’سنن ابی داؤد‘‘ نے اس عبارت کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ الفاظ یہ ہیں: (( ھٰذَا کَانَ بِالنِّسبَۃِ لِزَمَنِ اَبِی دَاؤد)) [1] ۳۔ ایک روایت میں اذانِ عثمانی کو تیسری اذان اور دوسری روایت میں پہلی اذان اور تیسری روایت میں دوسری اذان کہا گیا ہے ۔ ایسا کیوں ہے؟ لہٰذا مَا التَّوفِیقُ بَینَ ھٰذِہِ الرِّوَایَاتِ المُتَعَارِضَۃ؟ جواب: ((وَ لَا مَنَافَاۃَ۔ لِأَنَّہٗ سُمِّیَ ثَالِثًا بِاِعتِبَارِ کَونِہٖ مَزِیدًا، وَ أَوَّلًا بِاعتِبَارِ کَونِہٖ فِعلُہٗ مُقَدَّمًا عَلَی الأَذَانِ، وَالإِقَامَۃِ۔ وَ ثَانِیًا بِاعتِبَارِ الأَذَانِ الحَقِیقِ، لَا الاِقَامَۃِ)) [2] ’’ ان تینوں روایات میں کوئی منافات نہیں۔ چونکہ اذانِ عثمانی ایک زائد اذان ہے۔ لہٰذا اس اعتبار سے اذانِ محمدی اور تکبیر کے مقابلہ میں اس کو تیسری اذان کہا گیا ہے اور چونکہ یہ اذانِ عہدِ نبوی اور عہدِ شیخین والی متوارث اذان سے پہلے دی گئی تھی۔ لہٰذا ان وجوہ کے اعتبار سے اس کوراوی نے پہلی اذان کہہ دیا ہے، اور تکبیر چونکہ اذانِ حقیقی کے حکم میں نہیں آتی۔ لہٰذا اذانِ حقیقی کے اعتبار سے اذانِ عثمانی دوسری اذان قرار پائی اور یوں ان روایات میں کوئی تعارض نہیں۔‘‘ خلاصہ مباحث: کتاب و سنت اور مسطورہ بالا فُحول علماء و فقہاء کی تصریحات اور تنقیحات کے مطابق جمعۃ المبارک کی ایک ہی اذان سنتِ نبوی، سنتِ صحابہ اور شرعی اذان ہے۔بہرحال کہ دوسری اذان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جیسے عظیم صحابی اور خلیفۂ راشد کی ایجاد کردہ ہے۔گو ضرورت کے تحت اب بھی اس کو اپنانے کی گنجائش ہے۔ تاہم
Flag Counter