Maktaba Wahhabi

280 - 829
سے فارغ ہو جائے۔ ’’شرح بلوغ المرام‘‘ میں لکھا ہے، کہ اگرچہ اس حدیث میں ضعف ہے، لیکن اذان کی غرض اس کی مؤید (تائید کر رہی) ہے۔ کیونکہ اذان کی غرض یہی ہے، کہ لوگ سن کر پہنچ جائیں۔ نیز بخاری میں حدیث ہے: ((بین کُلِّ اَذَانَینِ صَلٰوۃٌ ثَلاَثًا لِمَن شَائَ )) [1] ’’اپ نے تین دفعہ فرمایا: کہ ہر اذان اور اقامت کے درمیان جو چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔‘‘ اگر اذان اور اقامت کے درمیان وقفہ نہ کیا جائے تو جو نفل پڑھنا چاہے، نہیں پڑھ سکے گا۔ ہاں مغرب میں دو نفلوں سے زیادہ وقفہ نہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس کا وقت تنگ ہے۔ دوسری نمازوں میں اتنی افراتفری کی ضرورت نہیں۔(فتاویٰ اہلِ حدیث:۲؍۶۰۔۶۱) طلوعِ آفتاب کا مقررہ وقت سے کتنے منٹ بعد نماز پڑھ سکتے ہیں؟ سوال: طلوعِ آفتاب کا جو وقت لکھا ہوتا ہے اس کے کتنے منٹ بعد نماز پڑھ سکتے ہیں؟ جواب: تقریباً دس منٹ بعد نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ نصف النہا راور زوال کا مقررہ وقت سے کتنے منٹ بعد نماز پڑھ سکتے ہیں؟ سوال: نصف النہا راور زوال کا جو وقت لکھا ہوتا ہے اس کے کتنے منٹ بعد نماز پڑھ سکتے ہیں؟ جواب: تقریباً دس منٹ بعد۔ ظہر سے پہلے زوال کا وقت: سوال: زوال کا وقت ظہر سے پہلے کتنے منٹ کا ہو گا جس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے؟ جواب: قریباً پانچ چھ منٹ۔ ظہر سے پہلے زوال کا وقت کتنا ہو گا ؟ سوال: ظہر سے پہلے زوال کا وقت کتنا ہو گا یعنی ممنوع وقت۔ کسی کیلنڈر میں تو ۴۵ منٹ کا وقفہ لکھا ہوتا ہے جو زیادہ لگتا ہے اور بعض میں ۱۵۔۲۰ منٹ ہوتا ہے۔ آپ بتائیں کہ صحیح کیا ہے؟ جواب: اہلِ علم نے زوال معلوم کرنے کا ضابطہ یوں بیان کیا ہے، کہ ایک سیدھی لکڑی کھڑی کی جائے۔
Flag Counter