Maktaba Wahhabi

282 - 829
جمعہ کے دن زوال: سوال: بریڈ فورڈ سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا جمعہ کے دن زوال ہوتا ہے یا نہیں؟ مثلاً برطانیہ میں بارہ بجے کے بعد زوال ختم ہوتا ہو اور خطبہ بارہ بجے شروع ہوتا ہو تو زوال کے وقت یا قبل از زوال پڑھی گئی سنتوں کا کیا حکم ہے؟ یہ جومشہور ہے کہ جمعہ کے دن زوال نہیں ہوتا۔ اس کی کیا دلیل ہے؟ جواب: صاحب ’’مشکوٰۃ‘‘ نے دو احادیث بیان کی ہیں، جو اس پر دالّ(دلالت کرتی) ہیں، کہ جمعہ کے دن زوال کا وقت مَنہی اوقات(جن اوقات میں نماز پڑھنا منع ہے) سے مستثنیٰ ہے۔ اس وقت نماز پڑھنی جائز ہے۔ لیکن سندوں کے اعتبار سے دونوں احادیث کمزور ہیں۔ البتہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے، کہ ابو قتادہ کی کمزور روایت جس میں ’’جواز صلوٰۃ عند الزوال‘‘ کا ذکر ہے، اس کے ساتھ کمزور شواہد کو ملا دیا جائے، تو حدیث میں مضبوطی پیدا ہو جاتی ہے۔ مزید آنکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فعل بھی اس بات کا مؤید(تائید کرتا) ہے، کہ وہ جمعہ کے دن نصف النہار کو نماز پڑھتے تھے اور اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن تبکیر( اوّل وقت آنا) کی تحریض اور امام کے نکلنے تک نماز پڑھنے کی بلا تخصیص و استثناء ترغیب دی ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں حدیث ہے: ((مَنِ اغتَسَلَ ، ثُمَّ أَتَی الجُمُعَۃَ، فَصَلّٰی مَا قُدِّرَ لَہٗ ، ثُمَّ أَنصَتَ حَتّٰی یَفرُغَ مِن خُطبَتِہٖ، ثُمَّ یُصَلِّی مَعَہٗ غُفِرَ لَہٗ مَا بَینَہٗ ، وَ بَینَ الجُمُعَۃِ الأُخرٰی ، وَ فَضلُ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ)) [1] یعنی جس نے غسل کیا پھر جمعہ کے لیے آیا، پس جو قسمت میں ہوا نماز پڑھی، پھر خاموشی اختیار کی حتی کہ خطیب اپنے خطبہ سے فارغ ہو جائے، پھر وہ امام کے ہمراہ نماز ادا کرتا ہے تو اس کے موجودہ اور پچھلے جمعہ کی درمیانی مدت اور تین دن زائد کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ یہ روایت اور اس مفہوم کی دیگر صحیح روایات کے عمومات سے معلوم ہوتا ہے، کہ قبل از جمعہ نوافل کی کوئی تعداد مقرر نہیں۔ تاہم ابن ماجہ کی روایت میں قبل از جمعہ بلا فصل چار رکعتوں کا ذکر ہے، لیکن اس کی سند میں چار راوی سخت ضعیف ہیں۔ ملاحظہ ہو! ’’عون المعبود‘‘ بواسطہ ’’مرعاۃ المفاتیح‘‘ (۲؍۲۹۷)۔ لہٰذا یہ ناقابلِ حجت و استدلال ہے۔ اس لیے عامۃ الناس کا اقامتِ جمعہ سے پہلے دو یا چار سنتوں کا نظریہ غیر درست ہے۔ بلکہ پہلے وقت آنے والا حسبِ توفیق نوافل پڑھ لے۔ ’’کما تقدم آنفاً‘‘۔ البتہ خطبہ کے دوران
Flag Counter