Maktaba Wahhabi

293 - 829
چنداں ضرورت ہی نہ تھی ۔ اگرچہ راجح مسلک یہ ہے کہ مسجد الحرام میں بھی سُترہ ہونا چاہیے۔ ویسے سُترہ کے بغیر نماز ہو جاتی ہے، لیکن مع الکراہت۔ سلام پھرنے کے بعد بقیہ نماز بغیر سترہ کے پڑھنا: سوال: جب نماز کھڑی ہو اور کوئی شخص آجائے جس کی کچھ نماز فوت ہو چکی ہو اور وہ نماز میں شامل ہو جائے تو جب امام سلام پھیرے دے اور وہ شخص باقی نما زکے لیے اٹھ جائے تو کیا وہ سُترہ کی طرف نماز میں آگے یا پیچھے جا سکتا ہے؟ یا وہ نماز میں شامل ہونے سے پہلے اپنے سامنے سُترہ رکھ سکتا ہے۔ قرآن اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں جواب دیں۔ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ جواب: ایسی حالت میں سُترے کی تلاش میں آگے پیچھے جانے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ بعد میں ملنے والا مقتدی موجودہ ہیئت میں ہی نماز مکمل کرلے اور نہ ہی پیشگی کسی سُترہ کے بندوبست کی ضرورت ہے۔ غزوہ تبوک کے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازِفجر کی ایک رکعت فوت ہو گئی تھی۔ حالتِ قضائی میںثابت نہیں ہو سکا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کسی سُترہ کا انتظام کیا ہو۔ حالانکہ عہدِ نبوت کے آخری دور کا یہ واقعہ ہے۔ نیز اصل چونکہ ’’براء ۃِ ذمہ‘‘ ہے اس لیے بھی اسی کیفیت کو ترجیح ہو گی۔ سوال: کچھ آدمی جماعت کی پہلی رکعت میں آکر شامل ہوئے کچھ دوسری تیسری اور چوتھی رکعت میں۔ امام صاحب کے آگے سُترہ ہے، جب امام صاحب نے نماز مکمل کرادی۔ یعنی دونوں طرف سلام پھیر دیا، تو جن کی نماز ابھی رہتی ہے۔ کیا وہ اگلی صف میں سترہ کے نزدیک آسکتے ہیں یعنی بحالتِ نماز؟ اور کیا ان کے لیے وہ امام صاحب والا سُترہ کافی ہے یا کیا وہ ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہو کر سُترہ بناء سکتے ہیں؟ جواب: ایسی حالت میں مزید سُترے کی ضرورت نہیں۔ اسی جگہ اسی کیفیت میں نماز مکمل کرلینی چاہیے۔ غزوۂ تبوک کے سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی جماعت سے فوت شدہ ایک رکعت ایسی حالت میں مکمل کی تھی، حدیث کے الفاظ یوں ہیں: (( فَلَمَّا سَلَّمَ عَبدُ الرَّحمٰنِ۔ قَامَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُتِمُّ صَلَاتَہٗ۔ فَأَفزَعَ ذٰلِکَ النَّاسَ)) [1] ’’جب عبد الرحمن بن عوف نے نماز مکمل کر لی، تو اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز مکمل کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ لوگ یہ منظر دیکھ کر حیران ہوئے۔‘‘
Flag Counter