Maktaba Wahhabi

294 - 829
نمازی کے آگے سے گزرنے کی حد بندی: سوال: نمازی کے آگے سُترہ نہ ہونے کی صورت میں چار پانچ صفیں چھوڑ کر گزرنا جائز ہے ؟ اور اس کی دلیل میں کوئی حدیث ہے؟ جواب: حدیث میں مطلق نمازی کے آگے سے گزرنا منع آیا ہے۔ حد بندی کی تصریح نہیں۔ البتہ ابوداؤد کی ایک روایت میں ((قَذفَۃ بِحَجَرٍ)) کے لفظ ہیں۔ یعنی پتھر پھینکنے کے بعد آگے سے گزر جانے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اس کا مرفوع ہونا مشکوک ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کوضعیف سنن (۱۱۰)میں ذکر کیا ہے۔ البتہ موقوف ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بسندِ صحیح ثابت ہے۔ مشکوٰۃ حاشیہ البانی(۱؍۲۴۵) سوال: نمازی کے آگے سے گزرنے کا بڑا گناہ حدیث میں وارد ہے مگر ایک مولانا صاحب فرما رہے تھے کہ جتنی حد تک نمازی سجدہ کرتا ہے اگر اس کے درمیان والی جگہ سے گزرا جائے گا تو نماز ٹوٹ جائے گی اگر دوسری صف میں سے گزر جائے گا تو نماز نہ ٹوٹے گی۔ مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اللہ کے نزدیک صف کی مٹھی ہی اس کا سُترہ ہے کس حد تک بات درست ہے؟ امام شوکانی رحمہ اللہ کے نزدیک کیا یہی بات درست ہے کہ نمازی جتنی حد تک سجدہ کرتا ہے اس کے درمیان والی جگہ سے گزرے تو نماز ٹوٹ جائے گی وگرنہ نہیں۔ ٹی وی میں بھی ایک مولانا صاحب یہی فرما رہے تھے۔ دوسری صف میں سے گزرے گا تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ بینوا توجروا۔ جواب: سنن ابوداؤد میں حدیث ہے: (( اِذَا جَعَلَتَ بَینَ یَدَیکَ مِثلَ مُؤَخَّرَۃِ الرَّحلِ فَلَا یَضُرُّکَ مَن مَرَّ بَینَ یَدَیکَ )) [1] یعنی ’’پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر آگے کوئی شے ہو اور پھر کوئی تیرے آگے سے گزر جائے، تو کوئی حرج نہیں۔‘‘ علامہ عظیم آبادی رحمہ اللہ ’’عون المعبود‘‘ (۱؍۲۵۵)میں فرماتے ہیں: (( ثُمَّ المُرَادُ مَن مَرَّ بَینَ یَدَیکَ بَینَ السُّترَۃِ ، وَالقِبلَۃِ ، لَا بَینَکَ ، وَ بَینَ السُّترَۃِ )) یعنی ’’اگے سے مراد سُترہ اور قِبلہ کا درمیان ہے۔ نہ کہ نمازی اور سُترہ کا درمیان۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فاصلہ جائے سجود (سجدہ کی جگہ) سے کچھ زیادہ ہونا چاہیے، جس کی حد بندی ’’قَذفَۃٌ بِحَجَرٍ‘‘ (کنکری پھینکنے)کے ساتھ کی گئی ہے۔ یعنی پتھر پھینکنے کے بقدر آگے سے گزرنے میں
Flag Counter