Maktaba Wahhabi

298 - 829
سے کی ہے۔ اس لیے کہ ان چیزوں کے گزرنے سے دل ان کی طرف مشغول ہو جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ اس سے نماز باطل ٹھہرتی ہو۔ اور امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اپنی ’’سنن‘‘ میں دونوں قسم کی روایات کے لیے مختلف ابواب قائم کیے ہیں۔ بحث کے اختتام پر رقمطراز ہیں : (( اِذَا تَنَازَعَ الخَبَرَانِ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نُظِرَ إِلَی مَا عَمِلَ بِہِ أَصحَابُہٗ مِن بَعدِہٖ )) [1] یعنی ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب متعارض احادیث وارد ہوں، تو ان میں یہ دیکھا جاتا ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل کس پر تھا؟‘‘ صاحب’’عون المعبود‘‘ کلام ہذا کی تشریح میں فرماتے ہیں: ((قُلتُ قَد ذَھَبَ أَکثَرُ الصَّحَابَۃِ (رِضوَانُ اللّٰہِ عَلَیھِم أَجمَعِین) إِلٰی أَن لَا یَقطَعَ شَیئٌ)) یعنی میں کہتا ہوں کہ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم اس طرف گئے ہیں کہ کوئی شے نماز کو قطع نہیں کرتی۔ چند سطور بعد فرماتے ہیں: مؤلف کے نزدیک بھی راجح عدمِ قطع ہے۔(۱؍۲۶۲) نیز امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین کا مسلک یہی نقل کیا ہے،کہ کسی شے کے نماز ی کے سامنے سے گزرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی البتہ خشوع جاتا رہتا ہے۔ (واللّٰہ أعلم بالصواب و علمہ أتم) عورت، گدھا اور کالے کتے کے نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز ٹوٹنا: سوال: کیا واقعی عورت، گدھا اور کالے کتے کے نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ؟اگر یہ حدیث صحیح ہے تو کیا منسوخ ہے یا ابھی تک اس کا حکم برقرار ہے؟ جواب: مسئلہ ہذا سخت اختلافی مسائل میں سے ایک ہے۔ اہلِ علم کے اس میں متعدد مذاہب ہیں۔ جن کی بناء زیادہ تر دلائل مستنبطہ ہے۔ جملہ مذاہب میں سے ہمارے نزدیک محقق اور راجح بات یہ ہے، کہ نمازی کے سامنے سے کسی بھی شے کے گزرنے سے نماز قطع نہیں ہوتی۔ اگرچہ سامنے سُترہ نہ ہو۔ قریب ترین بات یہ ہے کہ وہ احادیث جن میں نماز ٹوٹنے کا ذکر ہے، وہ ان احادیث کے ساتھ منسوخ ہیں، جن میں عدمِ قطع کا ذکر ہے۔ علامہ احمد محمد شاکر،ترمذی(۲؍۱۶۴) کے حواشی پر رقمطراز ہیں:
Flag Counter