Maktaba Wahhabi

320 - 829
طور پر کھڑا ہو جا۔ پھر انہوں نے تکبیر تحریمہ کہی۔ [1] ایڑھی سے ایڑھی ملائیں؟ یا ٹخنے سے ٹخنا؟ یا پاؤں سے پاؤں؟ سوال: ہماری مسجد میں ایک مولوی صاحب نے نماز مغرب کی امامت کروائی اور صف بندی کرواتے ہوئے درج ذیل الفاظ کہے، ’’نماز کے لیے ایڑھی سے ایڑھی ملانا فرض ہے اور اگر ایڑھی سے ایڑھی نہ ملائی جائے تو دل میں فتور پیدا ہوتا ہے‘‘ جب کہ حافظ محمد عبد اللہ روپڑی رحمہ اللہ کے فتویٰ کے حوالہ سے ایک مولانا صاحب نے بتایا ہے کہ ایڑھی سے ایڑھی ملانا تو کجا ٹخنے سے ٹخنا ملانا بھی مشکل ہے، صرف پاؤں سے پاؤں مل جائیں تو بہتر ہے۔ آپ سے یہ سوال ہے کہ کیا ایڑھی سے ایڑھی ملائیں؟ یا ٹخنے سے ٹخنا؟ یا پاؤں سے پاؤں؟ جواب: جماعت میں ہر نمازی کا کندھا، دوسرے کے کندھے، اورٹخنا دوسرے کے ٹخنے کے ساتھ ملا ہوا ہونا چاہیے۔ چنانچہ صحیح بخاری کے ’’ترجمۃالباب‘‘ میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (( رَأَیتُ الرَّجُلَ مِنَّا یُلزِقُ کَعبَہٗ بِکَعبِ صَاحِبِہٖ )) ’’میں نے دیکھا کہ ہم میں سے ہر شخص اپنا ٹخنا اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ ملاتا تھا۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں ہے: (( وَکَانَ أَحَدُنَا یُلزِقُ مَنکِبَہٗ بِمَنکِبِ صَاحِبِہٖ وَقَدَمَہٗ بِقَدَمِہٖ)) [2] ’’ ہم میں سے ہر شخص دوسرے کے کندھے سے اپنا کندھا اور اُس کے قدم سے اپنا قدم ملاتا تھا۔‘‘ جب ٹخنے سے ٹخنا ملے گا، تو ایڑھی سے ایڑھی خود بخود مل جائے گی، اسی طرح پاؤں بھی مل جائیں گے۔ لہٰذا اس میں کوئی تعارض نہیں۔ محدث روپڑی رحمہ اللہ نے صورتِ مذکورہ کو قطعاً مشکل قرار نہیں دیا۔ بلکہ انہوں نے بار بار پاؤں ملانے کو ناپسند فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’ کیونکہ نماز میں بلاوجہ پاؤں کو اِدھر اُدھر کرنا ناجائز ہے بلکہ تمام نماز میں پاؤں ایک جگہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ نماز میں فضول حرکت نہ ہو۔‘‘ (فتاویٰ اہلِ حدیث: ۲؍۱۹۹) سوال: کیا ایڑھی سے ایڑھی یا ٹخنے سے ٹخنہ ملانا فرض ہے؟ جواب: ’’مسند احمد‘‘ (۴؍ ۲۷۶) میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
Flag Counter