Maktaba Wahhabi

338 - 829
قَد قَامَتِ الصَّلٰوۃُ کے جواب میں اَقَامَھَا اللّٰہُ وَ اَدامَھَاکہنا : سوال: جس وقت اقامت کہنے والا’’قَد قَامَتِ الصَّلٰوۃُ‘‘ کہے تو اس کے جواب میں’’اقَامَھَا اللّٰہُ وَ اَدامَھَا‘‘ کہنا چاہیے کہ نہیں؟ محمد اقبال کیلانی کی کتاب ’’کتاب الصلاۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ جواب: مشارٌ الیہ روایت واقعی ضعیف ہے ۔ امام منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( فِی إِسنَادِہٖ رَجُلٌ مَجھُولٌ ، وَ شَھرُ بنُ حَوشَبِ تَکَلَّمَ فِیہِ غَیرُ وَاحِدٍ۔ وَ وَثَّقَہُ أَحمَدُ، وَ یَحیٰی بنُ مُعِینٍ)) [1] لہٰذا اصل کلمہ’’قَد قَامَتِ الصَّلٰوۃَ‘‘ کو ہی اختیار کرنا چاہیے۔ سوال: تکبیر ہو رہی ہو تو ((قَد قَامَتِ الصَّلٰوۃِ))کہنے پر (( اَقَامَھَا اللّٰہُ وَ اَدَامَھَا)) کہنا چاہیے یا آخر میں؟ ہمارے مولوی صاحب کا کہنا ہے درمیان میں کہنا چاہیے آخر میں نہیں۔ جواب: تکبیر میں ((قَد قَامَتِ الصَّلٰوۃَ)) کا جواب کلمات کے درمیان اسی طرح دہرانا چاہیے۔((اقَامَھَا اللّٰہُ)) والی روایت صحیح نہیں۔ اقامت کے بغیر نماز کا حکم: سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ فرضی نماز کی ادائیگی کے وقت جو تکبیر کہی جاتی ہے وہ اگر سہواً چھوٹ جائے اس صورت میں نماز ہو جائے گی یا دوبارہ تکبیر کہہ کر نماز ادا کی جائے گی۔ جواب: صورت مرقومہ( تحریر کی گئی صورت) میں جمہور اہلِ علم اس بات کے قائل ہیں کہ نماز درست ہے، اعادے کی ضرورت نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقامت حکماًسنتِ مؤکدہ ہے، فرض اور واجب نہیں اور جو لوگ واجب ہونے کے قائل ہیں، ان میں سے اکثریت کا خیال ہے کہ اقامت فرض کفایہ ہے، جس کا مفہوم ومدعایہ ہے کہ کسی وقت ترک کی صورت میں نماز کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ عطاء اور مجاہد; وغیرہ کے نزدیک تکبیر چونکہ علی الاطلاق فرض ہے۔لہٰذا بصورتِ ترکِ نماز کی دہرائی ضروری ہے اور بعض مالکی فقہاء نے سہواً (بھول جانے) اور غیر سہو(نہ بھولنے) میں فرق کیا ہے ۔یعنی سہواً اگر تکبیر رہ جائے تو نماز ہوجائے گی بصورتِ دیگر اعادہ ( دہرانا ) ضروری ہے ۔مشہور فقیہ امام خرقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
Flag Counter