Maktaba Wahhabi

348 - 829
الگ جماعت کروا کر ایسا گناہ کیا جو ان کی اصل نماز کا ثواب بھی لے گیا اور انھیں یہ بات قطعاً نفع نہ دے گی کہ فلاں مسلک یا جماعت کے لوگ سنن یا مندوبات کے تارک ہیں۔ آپ بعض ایسے لوگوں کو بھی دیکھیں گے کہ وہ مسلمانوں کی مساجد سے علیحدہ ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں میں تفریق ڈالنے اور انھیں دکھ دینے کے لیے الگ مسجدیں بناتے ہیں۔ ہم اﷲ سے نیکی کی توفیق اور گناہ سے بچنے کا سوال کرتے ہیں اور یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے کلمے پر متحدہ ہونے کی ہدایت دے۔ کیونکہ وہ دعا سننے والا ہے۔ [1] باقی رہا حضرت انس رضی اللہ عنہ کا فعل تو اس کے متعلق علامہ البانی فرماتے ہیں کہ وہ درج ِ ذیل وجوہات کی بناء پر قابلِ استدلال نہیں۔ ۱۔ اس لیے کہ وہ موقوف ہے۔ ۲۔ ان سے زیادہ فقیہ اور بلند رتبہ والے صحابی حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا عمل ان کے خلاف ہے۔ ۳۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا عمل عین سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ہے۔[2] ممکن ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ ایسی مسجد کے پاس سے گزرے ہوں جس میں موذّن یا امام راتب موجود نہ ہو۔ دوسری روایات میں آتا ہے کہ آپ قریباً بیس آدمیوں کے ہمراہ مسجد بنو سلمہ کے پاس سے گزرے تھے تو آپ نے اذان کہلوائی اور جماعت کروائی۔ اس صورت میں باہر سے آنے والے مسافروں کی جماعت کے لیے گنجائش نکل سکتی ہے لیکن مطلقاً نہیں کیونکہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک مسجد میں ایک نماز کی متعدد جماعتوں کو دستور العمل نہیں بنایا، نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور نہ آپ کی زندگی کے بعد۔(واللّٰه أعلم و علمہ أتم) مزید وضاحت (از: حافظ ثناء اﷲ، مدنی ) مسئلہ ہذا کی جو تصویر عزیز مولانا عبد الجبار سلفی حفظہ اللہ نے پیش کی ہے، واقعی قبیح شکل ہے جس سے موافقت نہیں کی جا سکتی۔ لیکن جہاں تک اصل مسئلہ میں جواز کا پہلو ہے، سابقہ مستندات کے پیشِ نظر اس میں تو کلام نہیں ہونا چاہیے۔ پھر سطور بالا میں علامہ البانی رحمہ اللہ کے حوالہ سے جو اشکال پیش کیا گیا ہے، اس کا جواب علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں!’’ اگر کوئی یہ شبہ پیش کرے، کہ یہاں پر اقتداء
Flag Counter