Maktaba Wahhabi

360 - 829
کھڑے ہوکر کرانی چاہیے۔(واﷲ اعلم) بے وضوء امام کی اقتداء میں پڑھی گئی نماز کا اعادہ: سوال: حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ’’امام نے بے وضو نماز پڑھائی تو مقتدی کو بھی امام کی طرح نئے سرے سے نماز پڑھنا ہوگی۔‘‘ (فتاویٰ اہلحدیث) ابن باز رحمہ اللہ وغیرہ ایسے موقعے پر مقتدی کی نماز کو صحیح کہتے ہیں۔ درست مسئلہ کیا ہے؟ جواب:اس مسئلہ میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ کاموقف راجح ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حدیث ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((یُصَلُّونَ لَکُمْ، فَإِنْ أَصَابُوا فَلَکُمْ، وَإِنْ أَخْطَؤا فَلَکُمْ وَعَلَیْہِمْ)) [1] ’’وہ تمہیں نماز پڑھائیں گے۔ اگر وہ درستگی کو پہنچے تو تمہاری نماز کا ثواب تمہارے لئے ہے (اور ائمہ کا ثواب ان کے لئے ہے) اور اگر انہوں نے غلطی کی تو تمہاری نماز کا ثواب تمہارے لئے ہے اور ان کی غلطی کا مداوا ان کے ذمہ ہے۔‘‘ امام بخاری نے اس پر یہ عنوا ن قائم کیا ہے:((بَابُ إِذَا لَمْ یُتِمَّ الإِمَامُ وَأَتَمَّ مَنْ خَلْفَہُ)) ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اس حدیث میں اس آدمی کی تردید ہے جو یہ کہتا ہے کہ امام کی نماز فاسد ہونے سے مقتدی کی نما زبھی فاسد ہوجاتی ہے۔‘‘ اور ’’شرح السنۃ‘‘میں امام بغوی فرماتے ہیں:’’اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب کوئی امام بغیر وضو کے لوگوں کو نماز پڑھا دے تو مقتدیوں کی نماز درست ہے اورامام کو نماز لوٹانی پڑے گی۔ [2] اور مؤطا میں باب إعادۃ الجنب الصلاۃ میں بسند ِصحیح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل بھی اسی طرح بیان ہوا ہے۔ اور سنن بیہقی :(۲؍۴۰۰ )میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ اور مصنف عبدالرزاق(۳۶۵۰)میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل بھی یہی بیان ہوا ہے ۔ محدث روپڑی رحمہ اللہ نے جو موقف اختیار کیا ہے، وہ حنفیہ کے مسلک کے مطابق ہے۔ مصنف عبدالرزاق (۳۶۶۱)، دارقطنی (۱؍۱۳۹) میں حضرت علی ؓسے اس طرح مروی ہے ،لیکن اس اثر میں راوی عمرو بن خالد واسطی متروک الحدیث ہے۔امام احمد نے اس پر جھوٹا ہونے کا الزام لگایا ہے اور حبیب بن ابی ثابت مدلس ہے۔ اس نے اس روایت کو عنعنہ سے بیان کیا ہے۔ نیز واضح ہو کہ موصوفین مرحومین دونوں میرے عظیم اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ بالخصوص محدث
Flag Counter