Maktaba Wahhabi

365 - 829
شریف میں ایک باب اس طرح قائم کیاہے: باب اھل العلم والفضل احق بالإمامۃ‘‘ اوراس باب کے تحت حدیث نمبر ۶۴۲میں ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی امامت کا واقعہ بیان فرمایا ہے حالانکہ قراء ت کے لحاظ سے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ قاری تھے ان دونوں احادیث میں مطابقت کس طرح دی جائے گی۔ جواب: مطلوبہ حدیث صحیح مسلم میں ’’باب من احق بالإمامۃ‘‘کے تحت موجود ہے۔ (ج ۱ص:۴۶۵ طبعہ دارعالم الکتاب) قصہ ابی بکر ایک مخصوص واقعہ ہے بخلاف ابو مسعود کی حدیث کے ، اس میں ایک قاعدہ کلیہ بیان ہوا ہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہے ۔ اَقْرَأ (زیادہ خوبصورت تلاوت کرنے والے)پر علم والے کو مقدم کرنے کا استدلال درست نہیں ۔تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو مرعاۃ المفاتیح کتاب الصلوٰۃ ، باب الامامۃ، الفصل الاوّل،ج:۴،ص:۴۵،طبع سرگودھا سوال: اگر ایک عالم دین کہے کہ (۱)میں سگریٹ پیتا ہوں(۲) داڑھی کٹواتا اور سیاہ کرتا ہوں۔ (۳) ٹیلیویژن دیکھنا اور رکھنا میری مجبوری ہے یعنی اس کے بغیر میرا گزارہ نہیں۔ کیا ایسے عالم کو مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض ادا کرنے کے لیے رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ جواب قرآن وسنت کے مطابق دیں۔جزاکم اﷲ۔ جواب: مذکور بالا قباحتوں (بُری عادات)سے متصف مولانا صاحب کو مسجد میں امامت و خطابت کے لیے مقرر نہیں کرنا چاہیے۔ ’’دارقطنی‘‘ میں حدیث ہے:’’اپنے امام بہتر لوگوں کوبنایا کرو۔‘‘ امامت کے لیے زیادہ اہل کون ہے؟ سوال: ایک آدمی جس کی داڑھی ہے مگر وہ دین کا علم کم رکھتا ہے دوسرا وہ ہے جس کی داڑھی تو نہیں ہے مگر دین کا علم کافی رکھتا ہے دونوں میں سے کون سا امامت کے لیے زیادہ اہل ہے؟ جواب: متبع سنت، داڑھی والے کو امامت کے مصلّٰی پر کھڑا کرنا چاہیے۔ داڑھی منڈے عالم کی مثال تو وہی ہے جو اﷲ نے قرآن میں یہود کی بیان فرمائی ہے: ﴿ مَثَلُ الَّذِینَ حُمِّلُوا التَّورَاۃَ ثُمَّ لَم یَحمِلُوھَا کَمَثَلِ الحِمَارِ یَحمِلُ اَسفَارًا بِئسَ مَثَلُ القَومِ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیٰتِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ لَا یَھدِی القَومَ الظَّالِمِینَ﴾ (الجمعۃ:۵) یعنی جن لوگوں کے (سر) پر تورات لدوائی گئی، پھر انھوں نے اس کے (بارِ تعمیل) کو نہ اٹھایا ان کی مثال گدھے کی سی ہے جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں۔ جو لوگ اﷲ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں۔ ان کی مثال بُری ہے اور اﷲ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
Flag Counter