Maktaba Wahhabi

407 - 829
دوران ہوگی یا اس کی قراء ت کے موقع پر؟ احادیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ فاتحہ امام کی قراء ت کے وقت پڑھی جائے اورامام کے سکوت کے موقعہ پر اگر ممکن ہو تو پڑھنا اَحوط (زیادہ احتیاط)ہے کیونکہ ایسا کرنا پہلے قول والوں کے نزدیک بھی جائز ہے۔اس پر عمل کرنا اجماع پر عمل کرنے کے مترادف ہوگا لیکن یہ معمول بنا لینا کہ امام کے فاتحہ یا سورت کی تلاوت کے وقت ہی فاتحہ پڑھنے کی سعی کی جائے، ایسا کرنا کوئی مستند نہیں بلکہ سب طرح جائز اور سنت ہے۔ البتہ مقتدی کے لئے امام کی قراء تِ فاتحہ کے وقت فاتحہ پڑھنا زیادہ مناسب ہے۔‘‘ [1] احناف کی طرف سے سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے کی یہ دلیل صحیح ہے؟ سوال: اَحناف سورۂ اعراف کی آیت ﴿وَإِذا قُرِئَ القُراٰنُ﴾ سے فاتحہ خلف الامام نہ پڑھنے کی دلیل لیتے تھے، اسی طرح سورۃ الاحقاف کی آیت ﴿وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَیکَ نَفَرًا مِنَ الجِنِّ یَستَمِعونَ القُراٰنَ فَلَمّا حَضَروہُ قَالُوْا اَنْصِتُوا﴾ (الاحقاف:۲۹)اور سورۃ القیامہ کی آیت ﴿لا تُحَرِّک بِہِ لِسانَکَ لِتَعجَلَ بِہِ﴾ (القیامۃ: ۱۶) سے بھی کچھ حنفی مولوی یہی دلیل لینے لگے ہیں۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین رحمہم اللہ یا کسی مفسر نے ان آیات کی اس طرح تفسیر کی ہے؟ جواب: مذکورہ بالا آیاتِ قرآنی کا تعلق سورۂ فاتحہ کے علاوہ سے ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی قرآن کی مُبیّن (وضاحت کرنے والی) ہے۔صحیح احادیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’سورۃ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں‘‘ اور قرآن میں ہے: ﴿وَماء اتٰکُمُ الرَّسولُ فَخُذوہُ وَما نَھٰکُم عَنہُ فَانْتَھُوا﴾ (الحشر:۷) ’’تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین نمونہ ہیں‘‘کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے سامنے سر جھکا دیا جائے اور اپنی عقل و فکر کو نبوت کی روشنی کے تابع کردیا جائے، سلامتی اسی میں ہے۔ تفسیر بالرائے کے بارے میں عذاب کی سخت تہدید اور وعید وارد ہے۔ آخری دو رکعتوں میں فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت ملانا : سوال: فرض نماز کی آخری رکعتوں میں عموماً صرف سورہ فاتحہ ہی پڑھی جاتی ہے۔ کیا ان رکعتوں میں فاتحہ کے علاوہ کوئی سورت بھی ملائی جاسکتی ہے یا نہیں؟ جواب: فرضوں کی آخری رکعتوں میں فاتحہ کے ساتھ سورت ملانے کا جواز ہے۔ صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت
Flag Counter