Maktaba Wahhabi

409 - 829
یعنی ’’جب نماز پوری ہو جائے، تو پھر روزی کی تلاش میں پھیل جاؤ۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ ان دو لفظوں کے مطابق جمہور کا عمل ہے۔ انہوں نے کہا: (( إن ما ادرک الماموم ہو اول صلاتہ إلا انہ یقضی مثل الذی فاتہ من قراء ۃ السورۃ مع امّ القرآن فی الرباعیۃ لکن لم یستحبوا بہ إعادۃ الجہر فی الرکعتین الباقیتین وکان الحجۃ فیہ قولہ ما ادرکت مع الإمام فہو اول صلاتک واقض ما سبقک بہ من القرآن۔ اخرجہ البیہقی وعن إسحق والمزنی لا یقرا الامام القرآن فقط وہو القیاس)) [1] اس سے معلوم ہوا کہ جمہور کا مسلک یہ ہے، کہ مقتدی جو دو رکعتیں بعد میں پڑھے، ان میں فاتحہ کے ساتھ سورت ملائے۔ ان کا استدلال اس حدیث سے ہے، کہ مأموم نماز کا جو حصہ امام کے ساتھ پائے، وہ اس کی پہلی نماز ہے، اور جوچیز قرآن سے فوت ہو جائے اس کی قضاء دے۔ تاہم اس میں جَہری قرأت نہیں۔ہاں البتہ اسحاق اور مزنی کا خیال ہے، کہ صرف ’’فاتحہ‘‘ پڑھے۔ قیاس کا تقاضا یہی ہے۔ لیکن بالا دلیل کی رُو سے ترجیح پہلے مسلک کو ہے اور دوسرے کا صرف جواز ہے۔ کیونکہ ’’فاتحہ‘‘ کے ساتھ سورت ملانا ضروری نہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے: (( وَ اِن لَم تَزِد عَلٰی اُمِّ القُراٰنِ اَجَزأتَ…الخ)) [2] ‘‘اگر تو فاتحہ کے ساتھ کوئی او رسورۃ ملائے تو کفایت کرجائے گی‘‘۔ سورۃ الفاتحہ کی آخری آیت نہ پڑھ سکنے کی صورت میں کیا رکعت لوٹائی جائے گی؟ سوال: مقتدی نے ابھی سورہ فاتحہ مکمل نہیں کی امام نے رکوع کردیا مقتدی پڑھتا رہا۔ پھر اس خوف سے فاتحہ کی’’صرف آخری آیت‘‘ چھوڑ دی کہ امام رکوع سے اٹھ نہ جائے۔ کیا یہ رکعت دوبارہ پڑھنا ہو گی۔ امام کے سلام پھیرنے کے بعد؟ جواب: یہ رکعت دوبارہ پڑھنی ہو گی کیونکہ فاتحہ کل سورت کا نام ہے بعض کا نہیں۔ امام کے سورۃ فاتحہ کی قراء ت کے بعد شامل ہونے والا فاتحہ کب اور کیسے پڑھے؟ سوال: زید جماعت میں اس وقت شامل ہوا جب امام فاتحہ پڑھ کر دوسری سورۃ شروع کر چکا تھا اب زید
Flag Counter