سورۃ فاتحہ کب اور کیسے پڑھے جب کہ قرأت کا سننابھی فرض ہے اگر سورۃ فاتحہ نہ پڑھے تو کیا وہ رکعت ہو جائے گی؟ جواب: امام کی قرأت کے دوران مقتدی آہستہ فاتحہ پڑھ سکتا ہے۔ یہ استماع اور خاموشی کے منافی نہیں۔ کیونکہ شریعت میں خاموشی کا اطلاق بعض دفعہ عدمِ جہر (آواز بلند نہ کرنے) پر ہوتا ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں رسول اﷲ صلی الله علیہ وسلم کی تکبیر اور قرأت کے درمیان چُپ ہو کر دعاے افتتاح پڑھنے کو سکوت اور اسکات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بہر صورت صحیح نصوص کی بناء پر فاتحہ کی قرأت از بس ضروری ہے۔ اس کے بغیر نماز نہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! تَحقِیقُ الکَلَامِ ، مِرعَاۃُ المَفَاتِیحِ(۱؍۵۹۸۔۵۹۹) فتاویٰ اہلِ حدیث (۲؍۱۴۲۔ ۱۴۰)(توضیح الکلام مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ) امام کے آمین کہنے کے وقت شامل ہونے والا سورۃ فاتحہ پڑھے گا؟ سوال: دوران جماعت مقتدی پہلی یا دوسری رکعت میں اس وقت شامل ہوا جب امام صاحب سورۂ فاتحہ کے آخر میں پہنچ چکے تھے۔ لہٰذا مقتدی نے امام کے ساتھ صرف آمین کہی۔ راہنمائی فرمائیں کہ مقتدی سورۂ فاتحہ کس وقت پڑھے گا یا کہ ضرورت نہیں رہے گی؟ اس صورت میں دعاے استفتاح پڑھنا ضروری ہے یا نہیں؟ جواب: ایسی حالت میں مقتدی کو اگر موقع مل جائے، تو سورۂ فاتحہ پڑھنی شروع کر دے۔ امام چاہے جونسی حالت میں بھی ہو (سکتہ یا قرأت)۔ کیونکہ صحیح احادیث میں ہے، کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اس حالت میں دعاے استفتاح نہ پڑھی جائے۔ کیونکہ اس کا پڑھنا مستجب ہے۔ واجب نہیں۔ پھر بھی اگر فاتحہ پڑھنے سے رہ جائے تو بعد میں رکعت مکمل پڑھنا پڑے گی۔ امام کے ساتھ قراء ت نہ کرنے والی روایت کا حکم؟ سوال: ذیل میں چند صحیح احادیث کا ترجمہ، عدمِ فاتحہ خلف الامام کی تائید میں ارسال کر رہا ہوں ، امید ہے کہ وضاحت کرکے تَشَفِّی فرمائیں گے۔ ۱۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ترجمہ حدیث: جب کوئی شخص امام کے پیچھے ہو تو اس کے لیے کوئی قرأت نہیں، چاہے فاتحہ ہو یا غیر فاتحہ۔ [1] |
Book Name | فتاوی ثنائیہ مدنیہ |
Writer | حافظ ثناء اللہ مدنی |
Publisher | مکتبہ انصار السنۃ النبویۃ ،لاہور |
Publish Year | 2016 |
Translator | |
Volume | 2 |
Number of Pages | 829 |
Introduction |