Maktaba Wahhabi

411 - 829
۲۔ امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے کے جواز میں جابر رضی اللہ عنہ کا فتویٰ:آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی نے ایک رکعت بھی پڑھی اور اس میں فاتحہ نہ پڑھی تو اس کی نماز نہیں الا یہ کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔( مؤطا امام مالک، ترمذی، امام ترمذی نے اس کو حسن صحیح کہا ہے) [1] ۳۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فتویٰ بیان کرتے ہیں: آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سکھا رہے تھے اور بتارہے تھے کہ جب امام ’’سَمِعَ اللّٰہ‘‘کہے تو تم ’’رَبَّنَا لَکَ الحَمد‘‘ کہو، وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ۔ اس طرح سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ جب امام قرأت کر رہا ہو تو تم (( فَاَنصِتُوا)) چپ رہو۔[2] ۴۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک جَہری نماز پڑھا رہے تھے، آپ کو الجھن پیش آئی ، نماز ختم کرنے کے بعد فرمایا کہ کون میرے پیچھے قرأت کر رہا تھا؟ صحابہ نے کہا کہ ہم لوگ قرأت کر رہے تھے اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((لَا تَفعَلُوا اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الکِتَاب)) [3]’’جہری قرأت میں سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھو۔‘‘ اس روایت پر اعتراض: اس روایت میں محمد بن اسحاق کا تفردہے اور اس کو دَجَّال اور کذَّاب کہا گیا ہے اس کے علاوہ اس بات کوکوئی اور بیان نہیں کرتا۔ اس پر دوسرا الزام یہ ہے کہ یہ مُدَلِّس ہے اور مُدَلِّس کی ’’عَن‘‘ سے روایت ناقابلِ قبول ہے اور اس میں محمد بن اسحاق ’’عَن‘‘ سے روایت کرتا ہے۔ ۵۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتویٰ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دریافت کیا ’’کوئی ابھی میرے ساتھ قرأت کر رہا تھا؟‘‘ تو ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اقرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ اسی لیے قرآن کے سلسلے میں مجھ سے تنازعہ ہورہا تھا۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرأت کرنے سے رُک گئے۔‘‘[4] بعض حضرات کا کہنا ہے کہ ہم جَہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ کے وقفات میں سورت پڑھتے
Flag Counter