Maktaba Wahhabi

413 - 829
علامہ موصوف کا یہ مدلل جواب، دراصل امام نووی رحمہ اللہ اور بیہقی کی گفتگو کا ملخص ہے، جس میں ایک عاقل اور صاحبِ بصیرت انسان کے لیے دعوتِ فکر و تحقیق ہے، تاکہ عظمتِ حدیث اور مقامِ سنت پر آنچ نہ آنے پائے۔ حنفی فقہاء کی صراحت: اس بناء پر ائمہ حنفیہ مثلاً: ابن الہمام اور ملا علی قاری وغیرہ نے صراحت کی ہے، کہ حنفیہ کے ہاں صحابی کا قول قابل حجت و استدلال ہے، بشرطیکہ کوئی مرفوع حدیث اس کے منافی نہ ہو۔ چنانچہ فقیہ ابن الہمام فرماتے ہیں: (( إِنَّ قَولَ الصَّحَابِیِّ حُجَّۃٌ۔فَیَجِبُ تَقلِیدُہٗ عِندَنَا،إِذَا لَم یَنفِہٖ شَیئٌ آخَرُ مِنَ السُّنَّۃِ )) [1] یعنی صحابی کا قول قابلِ حجت ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی تقلید واجب ہے، بشرطیکہ سنت میں کوئی اس کے منافی نہ ہو۔ اور ملا علی قاری فرماتے ہیں: ((قَولُ الصَّحَابِیِّ حُجَّۃٌ عِندَنَا۔ إِذَا لَم یَنفِہٖ شَیئٌ آخَرُ مِنَ السُّنَّۃ )) [2] یعنی صحابی کا قول ہمارے نزدیک قابلِ حجت ہے، بشرطیکہ سنت کے منافی نہ ہو۔ اور مولانا عبد الحی حنفی ’’امام الکلام‘‘ میں فرماتے ہیں: ((صَرَّحَہٗ ابنُ الھَمَّامِ، وَ غَیرُہٗ أَنَّ قَولَ الصَّحَابِیِّ حُجَّۃٌ، مَا لَم یَنفِہٖ شَیئٌ مِنَ السُّنَّۃِ، وَ مِنَ المَعلُومِ أَنَّ الأَحَادِیثَ المَرفُوعَۃَ دَالَّۃٌ عَلٰی إِجَازَۃِ قِراء ۃِ الفَاتِحَۃِ خَلفَ الأئِمََّۃِ، فَکَیفَ یُوخَذُ بِالأَثَارِ وَ تُترَکَ السُّنَّۃُ، (اِنتَھٰی) ))(ص،۱۶۱) یعنی ’’ابن ہمام وغیرہ نے اس بات کی تصریح کی ہے، کہ صحابی کا قول حجت ہے، بشرطیکہ سنت سے کوئی شے اس کی نفی نہ کرے اور یہ بات معلوم ہے کہ مرفوع احادیث اس بات پر دال ہیں، کہ اماموں کی اقتداء میں فاتحہ پڑھنے کی اجازت ہے۔ پس یہ کیسے ہو سکتا ہے، کہ آثار کو لے لیا جائے اور سنت کو چھوڑ دیا جائے؟‘‘ اس سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی، کہ سنت کے مقابلہ میں کسی کے قول کی کوئی حیثیت نہیں۔چاہے وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی جواب ہے۔ ان تمام آثار کا جو محلِ بحث میں سنت کے معارض پیش
Flag Counter