Maktaba Wahhabi

415 - 829
علامہ ابن الہمام حنفی فرماتے ہیں: ’’بلاشبہ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ ثقہ راوی ہے اور امام مالک رحمہ اللہ سے جو اس کے بارے میں جرح نقل کی گئی ہے، وہ ثابت نہیں اور اگر ثابت ہو تو اہلِ علم نے اس کو قبول نہیں کیا اور کس طرح قبول ہو،جبکہ شعبہ نے اس کو ’’امیر المومنین فی الحدیث‘‘ کہا ہے۔ کبار ائمہ نے اس سے روایت بیان کی ہے۔بخاری رحمہ اللہ نے ’’ جُزئُ القراء ۃ‘‘ میں بڑے زور شور سے اس کا ثقہ ہونا ثابت کیا ہے۔ جبکہ ابن حبان نے اس سے رجوع کر لیا تھا اور محمد بن اسحاق سے صلح کی نیز اس کے پاس تحفہ بھیجا۔‘‘[1] اور علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں:’’ بیہقی نے ذکر کیا ہے، کہ محمد بن اسحاق نے اپنے شیخ سے یہ حدیث سُنی ہے، اور یہ حدیث متصل صحیح ہے۔ یعنی اس میں تدلیس وغیرہ کا کوئی شبہ نہیں۔‘‘ [2] اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’القول المسدد‘‘ میں فرماتے ہیں:’’ابن جوزی نے محمد بن اسحاق پر جو حملہ کیا ہے وہ فضول ہے، کیونکہ ائمہ نے اس کی حدیث کو قبول کیا ہے۔وہ سچا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس میں تدلیس کا عیب ہے۔ جبکہ فاتحہ کی حدیث میں وہ بھی نہیں۔ کیونکہ مکحول سے ان کا سماع ثابت ہے۔ پھر محمد بن اسحاق اس روایت کے بیان میں متفرد بھی نہیں۔‘‘ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( وَ تَابَعَہٗ زَیدُ بنُ وَاقِدٍ، وغَیرُہٗ ، عَن مَکحُولٍ)) [3] یعنی اس حدیث کو بیان کرنے میں محمد بن اسحاق متفرد نہیں۔ زید بن واقد وغیرہ نے عن مکحول اس کی متابعت کی ہے۔ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو! ’’تحقیق الکلام‘‘ حصہ اول (ص:۵۷ تا۶۲) اور ’’اہلحدیث کے امتیازی مسائل‘‘ (شیخنا محدث روپڑی رحمہ اللہ ، ص:۶۳) ’’ فَانتَھَی النَّاسُ عَنِ القِرَائَ ۃ ‘‘کا مطلب: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کا جواب یہ ہے، کہ اس میں جملہ ’’فَانتَھَی النَّاسُ عَنِ القِرَائَ ۃ‘‘ یعنی لوگ قرأت کرنے سے باز آگئے۔ یہ زُہری (راوی حدیث) کا ’’مُدرَج‘‘ کلام ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا
Flag Counter