Maktaba Wahhabi

421 - 829
نماز میں سورۂ فاتحہ پر مولانا اثری کی تحقیق پر تبصرہ: پندرہ اپریل ۲۰۰۵ء کے الاعتصام میں فاضل محقق مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کا مضمون بعنوان ’’نماز میں سورۂ فاتحہ سہواً رہ جائے تو کیا حکم ہے ؟‘‘شائع ہوا، فی الجملہ ان کی تحقیق قابلِ تعریف ہے۔ جزاہ اللّٰہ خیرا۔ لیکن ایک بات محلِ تردد ہے ،موصوف فرماتے ہیں: ’’امام ، مقتدی یا منفرد جو بھی ’’سورۂ فاتحہ‘‘ بھول جائے، اسے وہ رکعت دوبارہ پڑھنی چاہیے۔‘‘ میرے خیال میں اس موقف پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔ انھیں یوں کہنا چاہیے تھا، کہ جس رکعت میں سورۂ فاتحہ رہ جائے ، وہ اور اس کے بعد والی رکعت کو دوبارہ پڑھنا چاہیے کیونکہ ’’البِنَائُ عَلَی الفَاسِدِ فَاسِد‘‘ کے تحت بعد والی نماز تو نماز ہی تصور نہیں ہوگی۔ (واﷲ اعلم) مقتدی سِرّی نمازوں میں فاتحہ کے ساتھ مطلقاً سورت ملا سکتا ہے ؟ سوال: کیا مُصلّی سرِّی نمازوں میں پہلی دو رکعتوں میں فاتحہ کے بعد امام کے پیچھے کوئی سورۃ پڑھے گا یا نہیں؟ جواب: مأموم (مقتدی) سِرّی نمازوں میں فاتحہ کے ساتھ مطلقاً سورت ملا سکتا ہے ۔ ممانعت صرف جَہری نمازوں کے لیے وارد ہے۔ مغرب کی باجماعت نماز میں تینوں رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھنا: سوال: کیا جو آدمی مغرب کی نماز باجماعت ادا کر رہا ہے وہ تینوں رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھے کیونکہ پہلی دو رکعتوں میں فاتحہ کے بعد امام کی قرأت سنتا ہے۔ یا یہ بھی ہے کہ فرائض کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے علاوہ کوئی اور سورت بھی ملائے؟ غیر جَہری نماز اور آخری دو رکعات میں صرف فاتحہ پڑھے تو کیا شام کی تیسری رکعت میں باجماعت نماز ادا کرنے والا صرف فاتحہ ہی پڑھے گا۔‘‘ جواب: مقتدی سری نماز میں فاتحہ کے ساتھ سورت ملا سکتا ہے اور آخری دو رکعتوں یا مغرب کی آخری رکعت میں بھی قرأت کا جواز ہے۔ ممانعت جہر کی صورت میں ہے۔ ((فَلَا تَقرَئَ ُوا بِشَیئٍ مِّنَ القُراٰنِ إِذَا جَھَرتُ إِلَّا بِأُمِّ القُرآٰنِ )) [1] ملاحظہ ہو : صحیح مسلم اور مؤطا امام مالک وغیرہ۔
Flag Counter