مقتدی اور امام کاآمین کہنا کیا آمین بالجہر کے عدم جواز پر استدلال صحیح ہے؟ سوال:میانوالی میں ایک حنفی عالم قاری محمد شعیب صاحب نے جمعہ پڑھایا اور قرآن کی آیت﴿ٰٓیاََیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ﴾سے آمین بالجہر کا ردّ کرتے ہوئے کہا کہ اہل حدیث کہتے ہیں کہ آمین سے مسجد گونج گئی۔ پہلی بات یہ ہے کہ مسجد نبوی کچی مسجد تھی، وہ کس طرح گونجتی تھی؟ دوسرے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی آواز بلند نہ کرو ، ورنہ تمہارے ایمان ضائع ہو جائیں گے۔ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نافرمان تھے جو ایسا کرتے تھے؟ حنفی کہتے ہیں کہ آمین اگر کہیں بھی تو بس اتنی کہ ساتھ والا سن لے۔ آواز گونجنے والی روایات میں اہل حدیث جھوٹے ہیں۔(شاہجہاں ملک) جواب: اس آیت سے آمین بالجہر کے عدم جواز پر استدلال کرنا نری جہالت ہے، جملہ مفسرین اور سلف کے فہم کے خلاف تفسیر بالرائے ہے جو مذموم ہے۔ مولانا عبد الحئی حنفی التعلیق المجد میں فرماتے ہیں: (( والاِنصاف أن الجھر قوی من حیث الدلیل)) ’’انصاف کی بات یہ ہے کہ اونچی آواز سے آمین کہنے کا ثبوت بہت پختہ ہے۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں باقاعدہ امام اور مقتدی کے لیے بآواز بلند آمین کہنے کے عنوانات قائم کیے ہیں اور اس ضمن میں نقل کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر اور ان کے مقتدی اتنی بلند آواز سے آمین کہ کرتے تھے کہ مسجد گونج اٹھتی تھی۔[1] امام بخاری رحمہ اللہ نے سے بصیغہ جزم ذکر کیا ہے جو اس کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نافرمان نہ تھے، تاہم ان کا فہم، فہم نبوت کے تابع تھا۔ جب |
Book Name | فتاوی ثنائیہ مدنیہ |
Writer | حافظ ثناء اللہ مدنی |
Publisher | مکتبہ انصار السنۃ النبویۃ ،لاہور |
Publish Year | 2016 |
Translator | |
Volume | 2 |
Number of Pages | 829 |
Introduction |