Maktaba Wahhabi

444 - 829
حضرت میاں صاحب دہلوی کی تحقیق انیق و تائید مزید اطمینان کے لیے ہم حضرت شیخ الکل فی الکل مولانا سید نا نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ المعروف بڑے میاں صاحب رحمہ اللہ کی تحقیق پیش کرنا مناسب خیال کرتے ہیں۔ فتاویٰ نذیریہ ،جلد اوّل، ص:۴۳۰، ۴۲۳ میں ان کا اپنا فتویٰ موجود ہے۔ استفادۂ تام کے لیے ہم سوال و جواب نقل کردیتے ہیں۔ سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عمر کہتا ہے کہ﴿ اَلَیسَ اللّٰہٌ بِأَحکَمِ الحَاکِمِینَ﴾ اور ﴿سَبِّحِ اسمَ رَبِّکَ الاَعلٰی﴾ اور ﴿فَبِاَیِّ حَدِیثٍ بَعدَہٗ یُؤمِنُونَ﴾ وغیرہ آیات کا جواب جس طرح قاری کو دینا چاہیے اسی طرح سامع کو بھی دینا چاہیے اور زید کہتا ہے کہ ان آیات کا جواب صرف قاری کو دینا چاہیے سامع کو نہیں دینا چاہیے۔ پس ان دونوں سے کس کا قول حق و صواب ہے۔ بینوا توجروا۔ الجواب: صورت مسؤل عنہا میں عمر کا قول أقرب الی الصواب (حق سے زیادہ قریب) ہے یعنی آیاتِ مذکورہ کا جواب جس طرح قاری کو دینا چاہیے، اسی طرح سامع کو بھی دینا چاہیے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بوقتِ قرأۃ ان آیتوں کا جواب دینا ثابت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاقول و فعل امت کے لیے ہر وقت دستور العمل ہے تاوقتیکہ اس کی تخصیص کسی وقتِ خاص ، یا شخصِ خاص یا حالت ِ خاص کے ساتھ ثابت نہ ہو مثلاً ’’رفع الیدین‘‘ اور ’’وضع الیدین علی الصدر‘‘ (سینے پر ہاتھ باندھنا) اور ’’رفع سبابہ فی التشہد‘‘ (تشہد میں انگلی اٹھانا) اور ’’جلسۂ استراحت‘‘ اور ’’توُرک‘‘ اور ’’قبل افتتاح قرأت‘‘ کے ((اللّٰہُ اَکبَرُ کَبِیرًا وَالحَمدُ لِلّٰہِ کَثِیرًا وَ سُبحَانَ اللّٰہِ بُکرَۃً وَّ اَصِیلًا )) یا ۔ ((انِّی وَجَّھتُ وَجھِی لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالاَرضَ)) یا ((اللّٰھُمَّ بَاعِد بَینِی وَ بَیںَ خَطَایَای)) پڑھنا یا رکوع میں ((سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ المَلَائِکَۃِ وَالرُّوحِ)) اور سجدہ میں ((سَجَدَ لَکَ وَجھِی وَ عِظَامِی وَ مُخِّی)) پڑھنا وغیرہ۔ یہ سب ایسے افعال ہیں جن کی مسنونیت میں کسی طرح کا شک نہیں ہو سکتا اور امت ِ محمدیہ میں سے ہر شخص کے لیے یہ افعال مسنون ہیں، خواہ وہ شخص امام ہو یا مقتدی، خواہ منفرد ہو حالانکہ یہ کہیں ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقتدیوں کو ان امور کی تعلیم فرمائی ہو یا عام طور پر فرمایا ہو کہ جو شخص جب نماز پڑھے تو ایسا کرے پھر بھی یہ احکام ہر شخص کے لیے اسی وجہ سے عام رہے کہ قول و فعل۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تمام افرادِ امت کے لیے دستور العمل ہوتا ہے جب تک حدیث مرفوع سے ہی تخصیص ثابت نہ ہو:’’قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی﴿لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ﴾ (الاحزاب:۲۱) پس بناء بر تقریر ھٰذا ان آیات کا جواب ہر شخص کو دینا چاہیے۔ عام ازیں کہ قاری ہو یا سامع، نماز میں ہو یا غیر نماز میں، امام ہو یا مقتدی یا منفرد ’’اتِّبَاعًا لِفِعلِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔‘‘
Flag Counter