Maktaba Wahhabi

479 - 829
یَجُوزُ اَن یَّکُونَ مُنتَصِبًا عَلَی الحَالِیَۃِ۔ أَی رَفَعَ یَدَیہِ فِی حَالِ لِکَونِہٖ مَدَّ لَھُمَا اِلٰی رَاسِہٖ۔ وَ یَجُوزُ اَن یَّکُونَ مَصدَرًا مُنتَصِبًا بِقَولِہٖ رَفَعَ: لِاَنَّ الرَّفعَ بِمَعنَی المَدِّ، اَصلُ المَدِّ فِی اللُّغَۃِ: اَلجَرُّ۔ قَالَہُ الرَّاغِبُ، وَالاِرتِفَاعُ قَالَہُ الجَوھَرِیُّ، وَ مَدُّ النَّھَارِ اِرتِفَاعُہُ وَ لَہٗ مَعَانٍ اُخرٰی۔ ذَکَرَھَا صَاحِبُ القَامُوسِ ))وَغَیرُہ۔ وَ قَد فَسَّرَ ابنُ عَبدِ البَرِ اَلمَدّ اَلمَذکُورَ فِی الحَدِیثِ بِمَدِّ الیَدَینِ فَوقَ الاُذُنَینِ مَعَ الرَّاسِ۔ اِنتَھٰی۔ وَالمُرَادُ : مَا یُقَابِلُ النَشرَ المَذکُورَ فِی الرِّوَایَۃِ الاُخرٰی ، لِأَنَّ النَّشرَ تَفرِیقُ الاَصَابِعِ )) [1] حاصل یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں کو سر کی طرف لمبا کرکے اٹھاتے تھے اور یہ انگلیوں کو پھیلانے کے بالمقابل ہے۔ کتاب ’’صفۃ الصلوٰۃ‘‘میں علامہ البانی فرماتے ہیں:((کَانَ یَرفَعُھُمَا مَمدُودَۃ الاَصَابِعَ لَا یُفَرِّجُ بَینَھَا وَ لَا یَضُمَّھَا)) (ص:۵۶)یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم انگلیاں لمبی کرکے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے۔ نمازی نہ ان میں کشادگی کرے اور نہ ان کو ملائے۔ ہاتھوں کا رُخ قبلہ کی طرف ہونا چاہیے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘(۲؍۱۸۸) میں بحوالہ ابوداؤد روایت نقل کی ہے۔ (( حَتّٰی یُحَاذِی بِظَھرِ کَفَّیہِ المَنکَبَینِ وَ بِاَطرَافِ اَنَامِلِہِ الاُذنَینِ )) دوسری روایت میں ہے: ((کَبَّرَ فَحَاذٰی بِاِبھَامِیہِ اُذُنَیہِ)) [2] مسئلہ رفع الیدین میں امام مالک بن انس رحمہ اللہ کا مؤقف: سوال: امام مالک بن انس رحمہ اللہ عدمِ رفع الیدین کے قائل تھے۔ جس کی تصریح المدوّنۃ الکبریٰ (۱؍۶۸)، ہدایۃ المجتہد(۱؍۱۱۴) اور نووی کی شرح مسلم (۱؍۱۶۸) سے ہوتی ہے ۔ حافظ ابن کثیر کی تصریح کے مطابق امام مالک کا مدفن مدینۃ النبی ہے۔[3] ظاہر ہے کہ امام مالک نے وہی فتویٰ دیا ہو گا کہ جس پر مسجدِ نبوی میں یا علمائے مدینہ کا عمل رہا ہو گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو آخر عمر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں رفع الیدین منسوخ ہو گیا تھا۔ یا پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ سنت ترک کردی ہوگی اور اگر یہ دونوں باتیں نہیں تھیں تو
Flag Counter