Maktaba Wahhabi

500 - 829
قِرَائَ ۃِ أمِّ القُراٰنِ فِی کُلِّ رَکعَۃٍ ۔ وَ قَد قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مَھمَا اَسبِقُکُم بِہِ ، إِذَا رَکَعتُ تُدرِکُونِی بِہٖ إِذَا رَفَعتُ )) [1] یعنی جس نے امام کی اقتداء میں شامل ہو کر ’’سورہ فاتحہ‘‘ شروع کی اور تکمیل سے پہلے امام رکوع میں چلا گیا ، تو یہ شخص رکوع نہ کرے حتی کہ ’’فاتحہ‘‘ کو پورا کرے۔ دلیل اس کی وہی ہے، جو قبل ازیں ہم بیان کر چکے ہیں، کہ ہر رکعت میں فاتحہ واجب ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے۔ میں آپ سے پہلے رکوع یا سجدہ کر گزرتا ہوں، تو تم لوگ مسابقت (پہلے کرنے کا) ادراک یعنی(کمی کا پورا کرنا) میرے اُٹھنے کے بعد کر لیا کرو۔‘‘ ان واضح اور مُصَرَّح دلائل و شواہد سے معلوم ہوا، کہ مقتدی ’’سورہ فاتحہ‘‘ پوری کرکے رکوع کرے اور اگر بالفرض کوئی مقتدی فاتحہ نامکمل چھوڑ کر رکوع میں چلاجائے تو اس رکعت کا اعادہ ضروری ہے۔ کیونکہ فاتحہ مکمل سورت کا نام ہے۔ بعض آیات نہیں صحیح حدیث میں وارد ہے: (( لَا صَلَاۃَ لِمَن لَّم یَقرَأ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ)) (متفق علیہ) (ھذا ما عندی و اللّٰٗہ أعلم بالصواب وعلمہ أتم) [2] نمازِ باجماعت میں ملنے کا طریقہ : سوال: ’’الاعتصام‘‘ کے شمارہ ۳،جلد:۴۷۔۲۰ جنوری؍۱۹۹۵ء ،۱۸شعبان کے ص:۹، پر حافظ ثناء اﷲ صاحب مدنی حفظہ اللہ کا ایک سوال کا جو اب چھپا ہے، جو راقم کو ذرا کھٹکتا ہے۔ اگر راقم کی رائے درست نہ ہو تو تصحیح فرما دینا۔ اگر مفتی صاحب حفظہ اللہ کی رائے درست ہو تو بذریعہ ’’الاعتصام‘‘ تائید فرما دینا، تاکہ راقم اپنے موقف پر نظر ثانی کر سکے۔سوال درج ذیل ہے۔ امام جب رکوع و سجدہ میں ہو تو جو شخص نماز میں آکر ملے وہ تکبیر کہہ کر سینہ پر دونوں ہاتھ باندھ کر پھر تکبیر کہہ کر امام کے ساتھ رکوع یا سجدہ میں ملے یا کوئی اور صورت ہے۔ سوال ختم ہوا۔ حضرت حافظ ثناء اﷲ صاحب کا جواب حدیث (( تَحرِیمُھَا ، التَّکبِیرُ، وَ تَحلِیلُھَا، التَّسلِیم)) [3]
Flag Counter