Maktaba Wahhabi

502 - 829
جائے۔ھذا ما عندی واﷲ اعلم بالصواب۔ (الاعتصام: ۲۹ستمبر ۱۹۹۵ء) مزید وضاحت(از شیخ الحدیث حافظ ثناء اﷲ مدنی) ہاں اصل یہی ہے، کہ مسبوق تکبیر کہہ کر امام کے ساتھ مل جائے اور جہاں تک سینے پر ہاتھ رکھنے کا تعلق ہے ، سو یہ ایک ذیلی حالت ہے۔ اس سے مقصود صرف نماز میں داخل ہونے کی عمومی حیثیت کا اظہار ہے اور حدیث ((فَلیَصنَعُ کَمَا یَصنَعُ الاِمَامُ )) [1] اگرچہ ضعیف ہے، لیکن محدثین نے شواہد کی بناء پر اس کو قابلِ اعتبار سمجھا ہے ۔یہ اس بات پر محمول ہے، کہ بعد میں انے والا امام کو جونسی حالتِ قیام، قعود، رکوع سجود میں سے پائے، ساتھ شامل ہوجائے۔ امام کے قیام کی طرف لوٹنے کا انتظار نہ کرے اور اگر کوئی شخص حدیث ہذا کے عموم کی بناء پر بغیر (( وَضعُ الأَیدِی )) صرف تکبیر پر اکتفاء کرے۔ یہ بھی درست ہے۔ مجھے اپنی رائے پر اصرار نہیں۔ فتویٰ ہذا ’’مرعاۃ ‘‘اور ’’سبل السّلام‘‘ وغیرہ کی طرف مراجعت کے بعد ہی تحریر کیا گیا تھا۔ بہرصورت میرے خیال میں مسئلہ ہذا میں وُسعت کا پہلو موجود ہے۔ (واللّٰہ أعلم بحقیقۃ الحال) حوالہ کی نشاندہی: مشارٌالیہ روایت امام بیہقی کی کتاب ’’شعب الایمان‘‘ میں ہے۔ ملاحظہ ہو! (۳؍۴۲۵) الرابع والعشرین من شعب الایمان و ھو باب فی الاعتکاف‘‘ عنون کے تحت یہ حدیث بیان ہوئی ہے۔ لیکن سخت ضعیف ہے۔ بذاتِ خود مصنف نے بھی اس کو ضعیف قرار دیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں: (( وَ إِسنَادُہٗ ضَعِیفٌ، وَ مَا قَبلَہ(فِیہِ) ضُعفٌ۔ )) (واللّٰه أعلم) اور رقم الحدیث (۳۹۶۷) کے تحت فرماتے ہیں:درست بات یہ ہے ،کہ علی بن حسین سے راوی محمد بن سلیم کے بجائے محمد بن زاذان ہے۔ (( وَھُوَ مَترُوکٌ ۔ قَالَ البُخَارِیّ: لَا یُکتَبُ حَدِیثُہُ)) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تقریب التہذیب میں رقمطراز ہیں: ((مُحَمَّدُ بنُ زَاذَانَ المَدَنِی مَترُوکٌ، مِنَ الخَامِسَۃِ ؍ت ق))
Flag Counter