Maktaba Wahhabi

514 - 829
((وَلَستُ أَشُکُّ أَنَّ وَضعَ الیَدَینِ عَلَی الصَّدرِ فِی ھٰذَا القِیَامِ بِدعَۃٌ ضَلَالَۃٌ، لِأَنَّہٗ لَم یَرِد مُطلَقًا فِی شَیئٍ مِن أَحَادِیثِ صِفَۃِ الصَّلٰوۃِ .وَ مَا أَکثَرَھَا . وَ لَو کَانَ لَہٗ أَصلٌ لَنُقِلَ إِلَینَا ، وَ لَو مِن طَرِیقٍ وَاحِدٍ. وَ یُؤَیِّدُہٗ أَنَّ أَحَدًا مِّنَ السَّلَفِ، لَم یَفعَلہُ، وَ لَا ذَکَرَ أَحَدٌ مِّن أَئِمَّۃِ الحَدِیثِ فِیمَا أَعلَم)) [1] یعنی ’’مجھے اس بارے میں ذرا برابرشک و شبہ نہیں، کہ اس قیام میں ہاتھ باندھنا بدعت اور گمراہی ہے۔ نماز کے اوصاف میں وارد کثرتِ احادیث کے باوجود کسی میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ اس کی اگر کوئی اصل ہوتی تو ضرور منقول ہوتی۔ اگرچہ ایک ہی طریق سے کیوں نہ ہو، اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے، کہ سلف میں سے کسی ایک کا اس کے مطابق عمل نہ تھا اور جہاں تک مجھے علم ہے ، ائمہ حدیث میں سے کسی نے اس کا تذکرہ نہیں کیا۔‘‘ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کی شرعی حیثیت : سوال: نماز میں رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب: رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا مصرح (واضح) کوئی ثبوت نہیں۔ صاحب’’المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں: (( وَ مَحَلُّ الوَضعِ مِنھَا کُلُّ قِیَامٍ ھُوَ قَبلَ الرُّکُوعِ، لِأَنَّ الأَصلَ ھُوَ الاِرسَالُ ، کََمَا ھُوَ وَضعُ الاِنسَانِ خَارِجَ الصَّلٰوۃِ۔ فَلَا یُترَکُ ھٰذَا الأَصلُ إِلَّا فِیمَا وَرَدَ النَّصُّ عَلٰی خِلَافِہٖ۔ وَ ھُوَ القِیَامُ قَبلَ الرُّکُوعِ۔ وَ أَمَّا القَومَۃُ: أَی الاِعتِدَالُ بَعدَ رَفعِ الرَّاسِ مِنَ الرُّکُوعِ، فَلَم یَرِد حَدِیثٌ مَّرفُوعٌ صَرِیحٌ یَدُلُّ عَلَی الوَضعِ فِیہِ، فَیَکُونُ فِیہِ العَمَلُ عَلَی الأَصلِ۔ وَالأَحَادِیثُ المُطلَقَۃُ تُحمَلُ عَلَی المُقَیَّدَۃ )) (۱؍۵۵۸) موضوع ہذا پر ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمہ اللہ اور پروفیسر حافظ عبد اﷲ بہاول پوری مرحوم اور سید محب اﷲ شاہ مرحوم کی تصانیف کافی مفید ہیں۔ معترضین کے جملہ اعتراضات کا خوب جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ (واللّٰہ ولی التوفیق) سوال: جب نمازی رکوع کے بعد کھڑا ہوتا ہے تو اس وقت سینے پر ہاتھ باندھنا کیسا ہے ؟ جواب:رکوع کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنا کسی حدیث سے صراحتاً ثابت نہیں ۔
Flag Counter