Maktaba Wahhabi

523 - 829
اس حدیث کی ایک تیسری سند (سنن کبریٰ بیہقی:۲؍۹۹) میں ہے اور وہ بھی سخت ضعیف ہے۔ اس میں درج ذیل علتیں ہیں: ۱۔ راوی محمد بن حجر کے بارے میں امام بخاری نے کہا :فیہ نظر( تاریخ کبیر :۱؍۶۹) ’’اس میں کلام ہے۔‘‘ ۲۔ راوی سعید بن عبدالجبار کو ابن حجر رضی اللہ عنہ نے تقریب میں ضعیف کہا ہے۔ اُمّ عبدالجبار کے بارے میں تہذیب التہذیب میں عبدالجبار بن وائل کے ترجمہ میں ہے کہ اس نے اپنے والدین سے سنا نہیں، اگر یہ بات صحیح ہے کہ اس نے اپنے باپ کی طرح اپنی والدہ سے بھی نہیں سنا تو اس سند میں چوتھی علت انقطاع ہے تو مشارالیہ سند اصل میں یوں ہے : محمد بن حجر ثنا سعید بن عبدالجبار عن عبدالجبار بن وائل عن اُمہ عن وائل بن حجر اور جہاں تک ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کا تعلق ہے، وہ صحیح ہے۔اس کو ابوداود، نسائی، احمد وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے کہا: ’’یہ حدیث صحیح یا حسن لذاتہ ہے اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔‘‘[1] مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ راجح اور قوی مسلک یہی ہے کہ سجدے میں جاتے وقت آدمی گھٹنوں کی بجائے پہلے اپنے ہاتھ زمین پر ٹکائے، اس مختصر بحث سے وہ تمام توجیہات جو صورتِ سوال میں ذکر کی گئی ہیں، کالعدم ہوجاتی ہیں۔جملہ تفصیل کے لئے تحفۃ الاحوذی اور إرواء الغلیل ملاحظہ ہو۔[2] سجدے میں جاتے وقت زمین پر پہلے ہاتھ رکھے جائیں یا گھٹنے؟ سوال: سجدے میں جاتے وقت زمین پر پہلے ہاتھ رکھے جائیں یا گھٹنے؟ یا دونو ں طرح جائز ہے؟ دونوں اطراف کی احادیث زیادہ تر غریب اور ضعیف ہیں۔ ہاتھوں والی احادیث پر امام بخاریؒ نے شدید جرح کی ہے۔[3] اسی طرح اونٹ والی حدیث بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ضعیف کہی ہے۔[4] ’’جزء رفع الیدین‘‘ میں مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے ، جس میں سجدہ میں جاتے وقت
Flag Counter