Maktaba Wahhabi

534 - 829
الوِترِ۔ ((اللّٰھُمَّ اھدِنِی)) [1] یعنی حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تعلیم دی، کہ وِتر میں قرأت سے فراغت کے بعد میں ((اللّٰھُمَّ اھدِنِی)) پڑھوں۔‘‘ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!’’ارواء الغلیل‘‘ (۲؍۱۶۸) نیز حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، کہ ابن مسعود اور صحاب رسول رضی اللہ عنہم نمازِ وِتر میں ’’قنوت‘‘ رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔ اس ’’أثر‘‘ کی سند صحیح ہے۔ ملاحظہ ہو!مصنف ابن أبی شیبہ:۲؍۳۰۲ اور صحیح ابن خزیمہ(۱۱۰۰)میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی روایت میں رکوع کے بعد بھی قنوتِ وِتر کا جواز ہے تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! (القول المقبول فی تخریج أحادیث الرسول صلي الله عليه وسلم) قنوت وِتر اور قنوت نازلہ کو جمع کی صورت میں رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر بھی دعا کی جا سکتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کا رجحان اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔ اور نمازِ وِتر میں اگر کوئی دعا قنوت بھول جائے، تو ’’سجودِ سہو‘‘ کے سلسلہ میں سلف سے نفی اور اثبات میں دونوں قسم کے آثار ملتے ہیں۔ ملاحظہ ہو! ’’کتاب الوتر‘‘ امام محمد بن نصر مروزی۔بظاہر اس امر میں وسعت معلوم ہوتی ہے۔(واﷲ تعالیٰ اعلم) قنوت نازلہ وہ دعا ہے، جو کسی حادثہ کے موقعہ پر بعد از رکوع پڑھی جاتی ہے۔ اس کے الفاظ کی صراحت ’’کتاب الوتر مروزی‘‘ اور ’’حصن حصین‘‘(۳۲۱)میں موجود ہے۔ عیدین کی نماز میں سجدۂ سہو : سوال: ہمارے محلے کے خطیب صاحب نے ۲۴ مئی ۱۹۹۴ء کو عیدِ قربان کی نماز پڑھانے سے پہلے عام لوگوں کو نماز پڑھنے کی ترکیب بتا کر کہاکہ اگر مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو تم میں سے کوئی نہ کوئی سبحان اﷲ زور سے ضرور کہے تاکہ میں سجدۂ سہو ادا کر سکوں۔ اس سے پہلے میں نے ایک دینی مسائل کی کتاب میں یہ پڑھا تھا کہ عیدین کی نماز میں سجدۂ سہو نہیں ہوتا۔ حکمت اس میں یہ بتائی تھی کہ اِن موقعوں پر عوام کا بے پناہ ہجوم ہوتا ہے۔ اگر امام سجدۂ سہو کرے گا تو آخر تک ہر نمازی کی سمجھ میں اِس بات کا آنا مشکل ہے اور گڑ بڑ ہونے کا امکان ہے اور دو عملی کا مظاہرہ ہو جائے گا بعض لوگ امام کی اتباع کریں گے اور بعض نہیں کریں گے۔ جواب: اصولِ راجح اور محقق مسلک کے مطابق نماز،چاہے فرض ہو یا نفلی، ہر دو صورت میں نسیان کی شکل
Flag Counter