Maktaba Wahhabi

581 - 829
الأَولٰی)) (۱؍۶۷۱) یعنی ’’ظاہر بات یہ ہے، کہ نمازی تشہد پر اضافہ نہ کرے۔ لیکن اگر کوئی اضافہ کردے، تو اس پر سجودِ سہو واجب نہیں، کیونکہ کوئی شرعی دلیل اس بات پر قائم نہیں ہو سکی، کہ (قعدۂ اولیٰ) میں تشہد پر زیادتی کی صورت میں سجدۂ سہو لازم ہے۔‘‘ جملہ دلائل سے ظاہر ہے کہ علامہ موصوف کا استدلال صرف شواہد پر مبنی ہے۔ بطورِ خاص کوئی صحیح مستند موجود نہیں۔ جب کہ دوسری جانب واضح موقف ہے۔ جو مُصَرَّح دلائل (واضح دلائل) پر موقوف ہے۔ مزید آنکہ ((المنتقیٰ، بَابُ مَا جَائَ فِی الصَّلَٰوۃِ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ))میں حدیث ہے : (( فَقَالَ لَہٗ بَشِیرُ بنُ سَعدٍ: اَمَرَنَا اللّٰہُ اَن نُّصَلِّیَ عَلَیکَ فَکَیفَ نُصَلِّی عَلَیکَ؟ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ: قُولُوا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ…)) [1] یعنی بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، کہ اﷲ نے ہمیں آپ پر درود کا حکم دیا ہے ہم آپ پر کیسے درود بھیجیں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو:((اللّٰھُمَّ صَلّ علی محمّدٍ …))الخ اور ’’مسند احمد‘‘ میں ہے: (( فَکَیفَ نُصَلِّی عَلَیکَ، إِذَا نَحنُ صَلَّینَا فِی صَلَاتِنَا؟)) [2] یعنی جب ہم نماز پڑھیں تو اپنی نمازوں میں آپ پر کیسے درود بھیجیں؟‘‘ مقامِ ہذا توضیح و تفصیل کا محل ہے۔ پہلے اور دوسرے (قعدہ) میں درود پڑھنے کے اعتبار سے فرق کی وضاحت نہ کرنا، عمومِ جواز کی دلیل ہے اور علومِ فقہ میں قاعدہ معروف ہے:((تَاخِیرُ البَیَانِ عَن وَقتِ الحَاجَۃِ لَا یَجُوزُ )) یعنی ضرورت کے وقت کسی شے کی وضاحت نہ کرنا ناجائز ہے۔ اس سے معلوم ہوا پہلے تشہد میں درود پڑھنا جائزہے۔ واضح ہو کہ علماء کا ایک گروہ نماز میں درود کے وجوب کا قائل ہے، جب کہ جمہور علماء عدمِ وجوب کے قائل ہیں۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے عدمِ وجوب کو اختیار کیا ہے ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!’’نیل الأوطار‘‘ (۲؍۲۹۵۔۲۹۶) درمیانی قعدہ میں درود شریف پڑھنا : سوال: درمیانی قعدہ میں کیا درود شریف پڑھنا ضروری ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ کے مطابق درود شریف نہ
Flag Counter