Maktaba Wahhabi

588 - 829
آپ پر سلام کیسے بھیجنا ہے۔ اب یہ فرمائیے : کہ آپ پر ’’درود‘‘ کیسے پڑھیں؟ فرمایا: ’’کہو! ((اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ… الخ )) [1] الفاظ حدیث سے ظاہر ہو رہا ہے، کہ جب سلام کا تعلق ’’تشہد نماز‘‘ سے ہی ہے، تو ’’درود‘‘ کا تعلق بھی نماز سے ہے جس کی یہاں تعلیم دی گئی ہے۔ حدیث ہذا عموم کے اعتبار سے دونوں تشہدوں کو شامل ہے۔ دوسری روایت میں ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا، کہ نماز میں تمجید و تحمید کے بغیر دعا کرنے لگا۔ فرمایا: ’’اس نے جلدی کی۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے بلایا، اور فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے، تو چاہیے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے، پھر درود بھیجے۔‘‘ ایک روایت میں ہے: ’’چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے۔ پھر جو چاہے دعا کرے۔‘‘ [2] یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے، کہ اس تشہد میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا واجب ہے ،کیونکہ آپ نے اس بات کا حکم دیا ہے۔ امام شافعی اور امام احمد (دو روایتوں میں سے آخری روایت کے مطابق) وجوب کے قائل ہیں اور ان سے پہلے صحابہ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے بھی ایک جماعت اسی بات کی قائل ہے۔ [3] وجہِ استدلال یہ ہے، کہ عام حالات میں چونکہ دعاوں کا محل نماز کا آخری حصہ ہے اور اسی اثناء میں درود کا حکم دیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ آخری قعدہ میں درود پڑھنا چاہیے۔ میرے نزدیک زیادہ احتیاط والا مسلک یہی ہے کہ قعدہ اخیرہ میں درود شریف کو واجب قرار دیا جائے۔ حضرت عمر، ابن عمر، ابن مسعود، جابر بن زید رضی اللہ عنہم ، شعبی، محمد بن کعب قرضی، ابو جعفر، شافعی، احمد بن حنبل، اسحاق، ابن اعواز رحمہما اللہ وجوب کے قائل ہیں، قاضی ابن العربی نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ دوسری طرف بہت سے اہلِ علم عدمِ وجوب کے قائل ہیں کہ درود کے بغیر بھی نماز ہو جاتی ہے۔ ان کے دلائل اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن احتیاطی مذہب وجوب کا ہی معلوم ہوتاہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! مرعاۃ المفاتیح (۱؍ ۶۷۴ تا ۶۷۶) اور ’’فتح الباری‘‘(۱۱؍ ۱۶۴) تشہد میں درود کے بعد دعاؤں کا آغاز کس دعا سے کریں؟ سوال: تشہد میں درود کے بعد کیا دعاؤں کا آغاز ((رَبِّ اجعَلنِی)) سے کرنا چاہیے؟
Flag Counter