Maktaba Wahhabi

592 - 829
جواب: حافظ ہیثمی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔[1] اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’بلوغ المرام‘‘ میں ابن حبان سے اس کی صحت نقل کی ہے اور علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس باے میں وارد ایک سند کو منذری نے صحیح اور ہیثمی نے اس کا جید ہونا نقل کیا ہے اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’زادالمعاد‘‘(۱؍۳۰۴) میں کہا۔ اس حدیث کے طُرق کو جمع کرنے سے پتہ چلتا ہے۔ کہ اس کی کوئی اصل ہے۔ بہرصورت روایت قابلِ حجت اور لائقِ عمل ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! تخریج صلوٰۃ الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ،ص:۳۲۷۔ آیۃ الکرسی پڑھنے والی حدیث کا حکم: سوال: آیۃ الکرسی کے متعلق آپ کا فتویٰ ہے کہ نماز کے بعد پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے۔ لیکن بلوغ المرام میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ برائے مہربانی اس حدیث کے متعلق اچھی طرح وضاحت فرما دیں۔ امام نسائی کے نزدیک بھی یہ حدیث صحیح ہے۔ جواب: حدیث ہذا شواہد کی بناء پر صحیح ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! تلمیذ رشید حافظ عبدالرؤف بن عبدالحنان کی کتاب ’’القول المقبول‘‘ ضعف کا فتوی اس وقت میرے ذہن میں نہیں۔ کیا نماز کے بعد ’’آیۃ الکرسی‘‘ والی حدیث ضعیف ہے ؟ سوال: مولوی عزیر مبارک پوری نے ایک مضمون میں اپنی تحقیق بیان کی ہے کہ نمازو ں کے بعد آیت الکرسی ، والی حدیث ضعیف ہے اور اس میں ایک راوی جھوٹا ہے۔ مضمون کے سیاق و سباق سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ آیت الکرسی جولوگ پڑھتے ہیں ترک کر دیں! کیا یہ صحیح ہے؟ نیز کیا محدثین کا اصول کہ فضائلِ اعمال میں ضعیف پر عمل ہوسکتا ہے، غلط اور ناقابلِ تسلیم ہے؟ جواب: واضح ہو، کہ ہر دور میں محدثین عظام کا طرۂ امتیاز رہا ہے، کہ وہ احادیث کو یوں پرکھتے ہیں، جیسے سُنار کسوٹی پر کھرا اور کھوٹا سونا پرکھتا ہے۔ لہٰذا یہ بات کوئی تعجب کی نہیں، کہ محترم محقق العصر غازی عزیر (حفظہ اللہ ) نے بھی محدثین کے اصولوں کے مطابق اپنی تحقیق پیش کرنے کی سعی فرمائی ہے۔ یہ انتہائی مستحسن عمل ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ بعض دفعہ تحقیقی میدان میں فہمِ قواعد میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے نتائج مختلف ہوتے ہیں۔ کبھی کسی محدث نے جان بوجھ کر صحیح حدیث کو نہ تو ضعیف کہا ہے اور نہ فی الواقع ضعیف کو صحیح کہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم مصطلح الحدیث بحرزَخَار ہے، جس میں غوطہ زن ہو کر سُچے موتی حاصل
Flag Counter