Maktaba Wahhabi

604 - 829
یہی وہ اسلوب ہے جو اہل رائے کے بالمقابل فقہاء محدثین(اہلحدیث) کا طرَّۂ امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ اسی امتیازی حیثیت کے حاملین نے دیگر مذاہب پر اپنی جرأت اور قوت و ہمت کا لوہا منوا کر شرفِ فوقیت حاصل کیا، جو صرف اس امت کا خاصہ ہے۔ جملہ تفصیل ’’الفصل بن حزم‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ’’مقدمہ صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن مبارک کا قول ہے : ((الإِسنَاد مِنَ الدِّین لَولَا الاِسنَادُ لَقَالَ مَن شَائَ مَا شَائَ )) اسی طرح مقدمہ ’’جامع الاصول‘‘ میں سفیان ثوری کا قول ہے:’’سند مومن کا ہتھیار ہے۔ جب اس کے پاس ہتھیار نہیں ہو گا، تو دشمن سے جنگ کیسے کرے گا۔‘‘ آفرین ان فحول پر جنھوں نے ہزاروں انسانوں کے سیرت و کرداراور احوال و سیر کو شیشۂ مرئی میں ڈھال کر رہتی دنیا تک پوری امت پر عظیم احسان فرمایا ہے۔ ((اُولٰئِکَ آبائی فجئنی بِمِثلِھِم)) بہرصورت سائل نے ’’صلوٰۃ الرسول‘‘ کے واسطہ سے بحوالہ ’’فتاویٰ نذیریہ‘‘ از ابن ابی شیبہ جو حدیث نقل کی ہے، اس کے بارے میں گزارش ہے۔ فی نفسہ روایت تو حسن درجہ ۔ لیکن اس میں الفاظ ’’ وَرَفَعَ یَدَیہِ ، وَدَعَا‘‘ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی۔موجود نہیں۔ بناء بریں اس روایت کو بطورِ دلیل پیش کرنا درست نہیں۔ ملاحظہ ہو! ابن ابی شیبہ(۱؍۳۰۲) مذکورہ کتاب میں ایک روایت حضرت انس سے دعویٰ پر دلیل کے طور پر پیش کی ہے۔ لیکن وہ بھی سخت ضعیف ساقط الاعتبار (اس کا اعتبار نہیں) ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو! ’’ صلوٰۃ الرسول مع التعلیقات والحواشی‘‘ حافظ عبدالرؤف،ص:۳۳۲ تا ۳۷۷، اور حنفیوں کے جس طریقہ کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے۔ یہ اختراعی طریق کار ہے۔ شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہیں اور اجتماعی دعا صرف منصوص مقامات پر درست ہے۔ اس کے علاوہ نہیں۔ (کَمَا سَبَقَ) ہر فرضی نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ سوال: ہر فرضی نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ جواب: فرضوں کے بعد حسبِ رغبت و نشاط یعنی (شوق اور توجہ)انفرادی دعا کا جواز ہے۔ لیکن اجتماعی دعا سے احتراز کرنا چاہیے۔ خدشہ ہے کہ بدعت کے زُمرہ میں شامل نہ ہو جائے۔ اس موضوع پر میرا ایک تفصیلی فتویٰ ’’الإعتصام‘‘ میں شائع ہو چکا ہے۔(جلد،۴۳، شمارہ:۳۶)
Flag Counter