Maktaba Wahhabi

616 - 829
عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ اور راقم الحروف شریک تھا۔ اس وقت مغرب کی نماز محدث گوندلوی نے پڑھائی، بعد میں کسی نے کہا:حضرت دعاء کیجئے تو انہوں نے فرمایا کہ میری امامت ختم ہوچکی ہے۔ ان کا مقصود یہ تھا کہ امام اور مقتدی اب اِقتداکی پابندی سے آزاد ہیں، اس لئے اجتماعی دعا کی ضرورت نہیں۔ اجتماعی دعا اور صحابہ رضی اللہ عنہ وتابعین رحمہما اللہ کا طرزِ عمل سوال میں جس روایت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، غالباً وہ فضل بن عباس کی روایت ہے جس کی حقیقت پہلے واضح ہوچکی۔ بعض لوگوں کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنے پر تعامل اُمت ہے۔اب بالاختصار اس کی حقیقت کو ملاحظہ فرمائیں : کتب ِاحادیث میں مشہورقصہ ذوالیدین سے بھی اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عہد ِنبوت میں نماز کے بعد اجتماعی دعا کا تصور نہ تھا۔ صحیح بخاری کے الفاظ یوں ہیں: ((وَخَرَجَ سَرَعَانُ النَّاسِ فَقَالُوا : أَقَصُرَتِ الصَّلاَۃُ؟ )) یعنی ’’مسجد سے جلدی نکلنے والے مقتدی یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ کیا نماز کم کردی گئی ہے۔‘‘[1] اور صحیح بخاری میں باب التسلیم کے تحت حدیث ہے کہ حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہانے فرمایا:’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو عورتیں فوراً اُٹھ کھڑی ہوتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑے سے وقفہ کے لئے تشریف رکھتے۔‘‘ امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’’میرا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے بیٹھے رہتے تاکہ عورتیں مردوں سے پہلے گھروں کو رخصت ہوجائیں۔‘‘[2] اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی سلام پھیرنے کے باب کے تحت نقل کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے رہنے کا عام حالات میں اس وقت معمول نہ تھا۔ اس سے نماز سے فراغت کے بعد اجتماعی دعا کا تصور ناپید ہوجاتا ہے۔ صحیح بخاری کے باب الذکر بعد الصلوٰۃ کی احادیث پر غور کیجئے یہاں صرف ذکرو اذکار کی تصریح ہے جس سے اجتماعی دعا کی خود بخود نفی ہوجاتی ہے اور صحیح بخاری کے باب مکث الإمام فی مصلاہ بعد السلام اور باب من صلی بالناس فذکر حاجۃ فتخطاھم پر بار بار غور فرمائیے، حقیقت ِحال منکشف ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ ابن ابی شیبہ (۱؍۳۰۲) میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سلام پھیرنے کے بعد اِمام کے بیٹھے رہنے کو بدعت
Flag Counter