Maktaba Wahhabi

626 - 829
سلفی نے بھی غالباً اسی طریقہ دعا کے اثبات کی سعی فرمائی ہے، اور اجتماعی طریقہ دعا سے سائل اور مسؤل عنہ دونوں ساکت ہیں۔ لہٰذا جہت کے اختلاف کی بناء پر ہمارے فتووں میں تضاد نہ ہوا۔ اب مفتی موصوف نے حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی جس روایت کو ذکر کرکے دعویٰ کیا ہے، کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ محض مفروضہ اور غیر تحقیقی بات ہے۔ ماہرینِ فن اس بات سے آگاہ ہیں، کہ حضرت ہیثمی کا قول (رجالہ ثقاتٌ) (اس حدیث کے رواۃ ثقہ ہیں) صحت حدیث کو مستلزم نہیں۔ ممکن ہے سند میں انقطاع ہو، جب کہ حافظ موصوف کے ’’مجمع الزوائد‘‘ میں اوہام بھی معروف ہیں۔ مدعی صحت کے لیے ضروری ہے، کہ پہلے اس کی صحیح سند پیش کرے۔ پھر اس پر اپنے دعوے کی بناء رکھے۔ مثل مشہور ہے: أَثْبِتِ العَرشَ ثُمَّ انقُشَ‘‘ (پہلے تخت کے وجود کو ثابت کر۔ پھر اس پر نقش و نگار کر) ایسے امور کے بارے میں اصولِ حدیث میں معروف ہے، کہ توقف کرنا چاہیے۔ (حَتّٰی یَاتِیَ اللّٰہُ بِاَمرِہٖ ) اور ’’فتاویٰ نذیریہ‘‘ میں وارد روایات کے بارے میں کئی دفعہ ’’الاعتصام‘‘ میں تفصیلی بحث شائع ہو چکی ہے۔ اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اوّلاً : تو ذکر کردہ روایات ضعیف ہیں اور کسی سے تمسک ممکن ہے تو وہ اصل موقف کی مؤید نہیں۔ ’’صفۃ الصلاۃ‘‘ کے باب میں محدثین کے قائم کردہ تراجم و ابواب پر، میں نے کافی غور و خوض کیا۔ بالخصوص ’’صحیح بخاری اس میں فرض نماز کے بعد اجتماعی یا انفرادی دعا کی طرف اشارہ تک موجود نہیں۔ عظیم شارح ’’خاتمۃ الحفاظ‘‘ ابن حجر رحمہ اللہ بھی ساکت نظر آتے ہیں۔ معلوم یوں ہوتا ہے، کہ اصل دعا کا محل قبل از سلام ہے۔ بعد میں صرف ذکر اذکار ، تسبیحات ،تحمیدات اور تکبیرات وغیرہ ہیں۔ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ کا یہی خیال ہے۔اﷲ تعالیٰ جملہ مسلمانوں کو سنت پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔آمین! اجتماعی دعاء کے متعلق ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی حدیث کی حقیقت کیا ہے ؟ سوال: صورت احوال یہ ہے کہ مولانا بشیر الرحمن صاحب نے ’’روح عبادت الدعا‘‘ ص:۶، پر لکھا ہے(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا فرمایا کرتے تھے) دلیل کے لیے حدیث یہ لکھی ہے: (( عَن عَبدِ اللّٰہِ بنِ الزُّبَیرِ أَنَّہٗ رَأَی رَجُلًا رَافِعًا یَدَیہِ، یَدعُوا قَبلَ أَن یَّفرُغَ مِن صَلٰوتِہٖ۔ فَلَمَّا فَرَغَ مِنھَا، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لَم یَکُن یَرفَعُ یَدَیہِ حَتّٰی یَفرُغَ مِن صَلٰوتِہٖ ‘ رجالہ ثقات۔ تحفۃ الاحوذی(۱؍۲۴۵) الطبرانی و مجمع الزوائد (۱۰؍۱۶۹)[1]
Flag Counter