Maktaba Wahhabi

656 - 829
((فَإِذَا سَھٰی أَحَدُکُم عَن صَلٰوۃٍ، فَلیُصَلِّھَا حِینَ یَذکُرُھَا، وَ مِنَ الغَدِ لِلوَقتِ )) [1] صاحب ’’العون‘‘ رقمطراز ہیں: ’ مَعنَاہ أنَّہٗ یُصَلِّیَ الصَّلٰوۃَ الفَائِتَۃَ حِینَ یَذکُرُھَا فَاِذَا کَانَ الغَدُ یُصَلِّی صَلٰوۃَ الغَدِ فِی وَقتِھَا المُعتَاد ‘ (۱؍۱۶۸) ’’ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے ،کہ فوت شدہ نماز جب بھی کسی کو یاد آئے پڑھ لے اور دوسرے دن اپنے مقررہ وقت پر پڑھنی چاہیے۔‘‘ سوال کے اخیر میں آپ کے مقرر کردہ مفروضے کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ شرع میں قضائی کا جواز ہروقت موجود ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! کتاب ’’صلوٰۃ الرسول صلي الله عليه وسلم ‘‘ تعلیقات حافظ عبد الرؤف حفظہ اللہ ص (۳۵۰، ۳۵۱)اور فتاویٰ اہلحدیث(۳؍۶۱) عصر کی نماز میں شامل قضاشدہ ظہر کی نماز ادا کرے گا یا عصر کی؟ سوال: ظہر کی نماز ادا نہیں کی۔ عصر کی جماعت ہو رہی ہو تو پہلے عصر کی ادا کریں گے یا ظہر کی؟ جماعت کے ساتھ کونسی نماز کی نیت کریں گے؟ جواب: دونوں طرح جائز ہے۔ تاہم بہتر معلوم ہوتا ہے، کہ موجودہ نماز پہلے پڑھے۔ پھر فوت شدہ کی قضائی دے لے۔ سوال: جس نے ابھی ظہر کی نماز ادا نہیں کی، اس نے عصر کی جماعت پائی تو وہ ظہر کی نماز کی نیت سے جماعت میں شامل ہوسکتا ہے یا نہیں؟ جب کہ اقامت ہو جائے تو ’’المکتوبۃ‘‘ کے سوا دوسری نماز نہیں ہوتی۔ علامہ احمد شاکر کہتے ہیں کہ ’’المکتوبۃ‘‘ معرف باللَّام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے وہی فرضی نماز مراد ہے جس کے لیے اس وقت تکبیر کہی گئی ہے (نہ کہ عام فرض نماز)۔ (دیکھئے ’’المحلی‘‘ مترجم اردو جلد دوم، باب مقتدی عذر کے بغیر امام سے پہلے سلام نہیں پھیر سکتا، عنوان: ۳۱۲، ص:۲۹۶ حاشیہ) جواب: ایسی صورت میں امام عصر کے ساتھ ظہر کی نیت کرے یا عصر کی دونوں طرح اختیار ہے۔ علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ کی توضیح عمومی حالت پر محمول ہے، جب کہ یہاں حتمی فیصلے سے وجوبِ ترتیب مانع ہے۔
Flag Counter