Maktaba Wahhabi

658 - 829
کرلے اور قضاء نماز کے بعد اس کا اعادہ نہ کرے؟ جواب: وسعتِ وقت کی صورت میں نماز توڑ کر پہلے پہلی پڑھے اور تنگی وقت کی صورت میں پہلے موجود پڑھے پھر فوت شدہ۔ جیسے ایک شخص نے عشاء کی نماز پڑھنی ہے، سورج نکلنے کے قریب یاد آیا، ایسی صورت میں پہلے فجر پڑھے پھر عشاء کیونکہ اس کے لیے وقت متعین ہے۔ اسی بناء پر فقہاء نے کہا ہے کہ:’فَإِن خَشِیَ فَوَاتَ الحَاضِرَۃِ سَقَطَ التَّرتِیبُ‘ یعنی حاضر نماز کے فوت ہونے کا ڈر ہو تو تریب ساقط ہوجاتی ہے۔ دو چار روز کی قضا شدہ نمازوں کی قضا بالترتیب یا بلا ترتیب؟ سوال: اگر کسی انسان کی کسی بھی وجہ سے دو چار روز کی نمازیں ادا کرنے سے رہ گئی ہوں تو ان کی قضاء کس طرح ادا کرنی چاہیے؟ جواب: فوت شدہ نمازوں کی قضائی بالترتیب دینی چاہیے۔ غزوۂ خندق کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضاء شدہ نمازوں کی قضائی بالترتیب دی تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں باب قائم کیا ہے: ((قَضَائُ الصَّلَوَاتِ الأُولٰی فَالأُولٰی)) کیا مریض آدمی دس دن کی نمازوں کی قضائی دے گا؟ سوال: ایک آدمی دس دن اتنا بیمار یا مصروف رہا کہ کوئی نماز نہ پڑھ سکا۔ اب اُسے ان فوت شدہ نمازوں کو پڑھنا چاہیے یا نہیں؟ وضاحت فرمائیں۔شکریہ جواب: دس دن کی قضاء شدہ نمازوں کی قضائی دینی چاہیے۔ اگر بیماری کی شدت کی وجہ سے غشی طاری رہی تو بایں صورت صرف قریبی پانچ نمازوں کی قضائی دے۔[1] ایک عرصہ بعد رہ جانے والی نمازیں یاد آئیں تو قضاء کا طریقہ: سوال: ایک آدمی کی کئی نمازیں کسی وجہ سے چھوٹ گئیں۔ کیا وہ اب ایک سال بعد دوہرا لے یعنی پڑھ لے یا صرف توبہ کرے؟ جواب: قضاء شدہ نمازیں عرصہ بعد یاد آنے کی صورت میں اگر کم ہوں تو آدمی قضائی دے لے۔ بصورتِ دیگررب کے حضور توبہ و استغفار کر لے کافی ہے:﴿ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفسًا اِلَّا وُسعَھَا﴾ (البقرۃ:۲۸۶)
Flag Counter