Maktaba Wahhabi

661 - 829
جیسے معمول ہے یا کوئی اور طریقہ ہوگا؟ جواب: تہجد اگر کسی وجہ سے رہ جائے، تو صبح کے وقت دن میں بارہ رکعت ادا کرنے کا جواز ہے۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے: (( وَکَانَ إِذَا غَلَبَہُ نَوْمٌ، أَوْ وَجَعٌ عَنْ قِیَامِ اللَّیْلِ صَلَّی مِنَ النَّہَارِ ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ رَکْعَۃ )) [1] یعنی ’’جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرنیند یا بیماری غالب آجاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن کو بارہ رکعت پڑھ لیا کرتے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علیحدہ بصورتِ وِتر قضاء کی ضرورت نہیں۔‘‘ تعاقب اور جوابِ تعاقب: سوال: ہفت روزہ الاعتصام (ص:۷،مطابق۲۸ہجری ،جمادی الثانیہ،۱۴۱۸۔ ۳۱ تا ۶ نومبر۱۹۹۷ء کے شمارہ میں آپ کا فتویٰ نظر سے گزرا جو دل میں کھٹکتا ہے۔ لہٰذا اصلاح نامہ پیش خدمت کر رہا ہوں اگر درست ہو تو تائید فرما کر الاعتصام میں شائع فرمادیں اور اگر میری بات محل نظر ہو اور آپ کانظریہ مختلف ہو مع دلائل دوبارہ الاعتصام میں وضاحت فرمادیں۔ تہجد رہ جائے تو اس کی قضاء کے بارے میں صحیح مسلم کی روایت نقل فرما کر آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بوجہ تکلیف اور نیند کے تہجد نہ پڑھ سکنے کا طرزِ عمل لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو بارہ رکعات ادا فرماتے تھے۔ پھر آگے آپ تحریر کرتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علیحدہ بصورتِ وِتر قضاء کی ضرورت نہیں۔(انتہیٰ) راقم کو آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں بلکہ مؤدبانہ درخواست ہے کہ تہجد والا آدمی جب بیدار ہو یا اسے یاد آئے یا اس کی تکلیف رفع ہو جائے تو پہلے وہ اسی وقت وِتر کی قضاء دے لے اور جو اس کا نمازِ فجر سے قبل کا وظیفہ نوافل یا تلاوت وغیرہ اذکار ہوں ، ان کی جگہ پر بارہ رکعات ادا کرے تو اس کا اجرو ثواب مطابق حدیث وہی ملے۔ میرے اس موقف کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (( مَن نَامَ عَن وِترِہٖ اَو نَسِیَہٗ فَلیُصَلِّہٖ اِذَا ذَکَرَہٗ )) [2] ’’جو اپنے وِتر سے سو گیا یا بھول گیا وہ جب بیدار ہو یا جب یاد آئے اسی وقت پڑھ لے۔‘‘(انتہیٰ) (علامہ شوکانی رحمہ اللہ اس کو صحیح قرار دیتے ہیں۔)
Flag Counter