Maktaba Wahhabi

665 - 829
عورت اور مرد کی نماز کے احکام عورت اور مرد کی نماز میں کیا فرق ہے؟ سوال: عورت اور مرد کی نماز میں کیا فرق ہے؟ ایک کتاب ہاتھ لگی ہے جس میں ایک عنوان رکھا ہے (خواتین کا طریقہ نماز) جس میں انھوں نے اُمّ درداء والی حدیث:((أَنَّ أُمَّ الدَّردَاء ِ، کَانَت تَجلِسُ فِی الصَّلَاۃِ کَجِلسَۃِ الرَّجُلِ)) [1]کہ اُمّ درداء نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھی۔‘‘ کے بارے میں کہا ہے کہ اس حدیث سے عورت کی نماز مرد کے برابر ہونے پر استدلال کرنا کئی وجہ سے درست نہیں ہے: ۱۔ اگرچہ حافظ مزی رحمہ اللہ نے ان کو صحابیہ کہا ہے لیکن دوسرے محدثین نے ان کو تابعیہ کہا ہے۔ لہٰذا یہ صحابیہ نہیں تابعیہ ہے اور ایک تابعی کا عمل اگرچہ اصول کے مطابق ہو تب بھی اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ ۲۔ اگر صحابیہ بھی شمار کیا جائے تب بھی ان کی اپنی رائے ہے انھوں نے کسی صحابیہ کو دعوت نہیں دی۔ انھوں نے اس فعل پر نہ ہی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ ہی خلیفہ راشد کا فتویٰ نقل کیا ہے۔ دراصل سوال یہ ہے کہ مولانا عبد الجبار غزنوی رحمہ اللہ کے ’’فتاویٰ غزنویہ‘‘، ’’فتاویٰ علمائے اہل حدیث‘‘ میں یہ بات درج ہے کہ عورت اور مرد کی نماز میں فرق ہے۔ جامعہ دارالعلوم کراچی اشرف المدارس والوں نے لکھا ہے کہ غیر مقلد اہل حدیثوں کو عبد الجبار غزنوی رحمہ اللہ کا فتویٰ نظرنہیں آتا؟ ’’بیہقی‘‘ اور ’’کنز العمال‘‘ میں حدیث ہے: (( عَن یَزِیدَ بنِ أَبِی حَبِیبٍ اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مَرَّ عَلٰی امرَأَتَینِ فَقَالَ اِذَا سَجَدتُمَا فَضُمَّا بَعضَ اللَحمِ اِلَی الاَرضِ فَاِنَّ المَرأَۃَ لَیسَت فِی ذٰلِکَ کَالرَجُلِ )) [2] (( عَن عَبدِ اللّٰہِ بنَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنہُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : اِذَا جَلَسَتِ المَرأَۃُ لِلصَّلٰوۃِ وَضَعَت فَخِذَھَا عَلٰی فَخِذِھَا الاُخرٰی وَ اِذَا سَجَدَت اِلصَقَت بَطنَھَا فِی فَخذَیھَا کَاَستُرِ مَا یَکُونَ لَھَا وَ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَنظُرُ اِلَیھَا وَ یَقُولُ یَا مَلَائِکَتِی اُشھِدُ کُم اِنِّی قَد غَفَرتُ لَھَا)) [3]
Flag Counter