Maktaba Wahhabi

686 - 829
مزید قرأت کا اضافہ جائز ہے اور جو حکم فرض کا ہے، وہی سنتوں اور نوافل کا بھی ہے۔ اصلاً دونوں نمازوں میں کوئی فرق نہیں۔ صحیح بخاری وغیرہ میں اُمّ المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی نمازِ تراویح والی روایت میں ہے، کہ: (( یُصَلِّی أَربَعًا، فَلَا تَسئَل عَن حُسنِھِنَّ ، وَ طُولِھِنَّ ۔ ثُمَّ یُصَلِّی أَربَعًا۔ فَلَا تَسئَل عَن حُسنِھِنَّ، وَ طُولِھِنَّ )) [1] یعنی ’’اپ صلی الله علیہ وسلم چار رکعت نماز ادا فرماتے تھے۔ تم ان کے حسن اور طوالت کا تو کچھ پوچھو ہی مت۔…‘‘ اس حدیث شریف کے مطابق بظاہر چار رکعتوں میں مساوات ہی ہے۔ لہٰذا یہ چار رکعت نوافل میں فاتحہ کے علاوہ مزید قرأت کے جواز کی دلیل ہے۔ مؤطا میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے فعل سے بھی منقول ہے، کہ (( کَانَ اِذَا صَلّٰی وَحدَہٗ یَقرَأُ فِی الاَربَعِ جَمِیعًا فِی کُلِّ رَکعَۃٍ بِأُمِّ القُراٰنِ ، وَ سُورَۃٍ مِّنَ القُراٰنِ )) [2] ’’ابن عمر رضی اللہ عنہما جب اکیلے نماز پڑھتے، تو چار رکعتوں میں سے ہر رکعت میں فاتحہ اور قرآن کی کوئی دوسری سورت پڑھتے۔‘‘ یہ بھی اگرچہ فرض نماز کا ذکر ہے۔ تاہم مذکورہ بالاوجہ کی بناء پر ظہر کی سنتیں وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ ظہر کے فرض سے پہلے چار رکعت سے زائد پڑھنا کیسا ہے؟ سوال: ایک آدمی ظہر کی نماز ادا کرنے آیا۔ مسجد میں اذان ہو جانے کے بعد فرضوں سے پہلے چار رکعت پڑھے یا وہ زیادہ بھی پڑھ سکتا ہے؟ جواب: ظہر کے فرض سے پہلے صرف چار رکعات پڑھنی چاہئیں۔ دو رکعتوں کا بھی جواز ہے۔ بہتر ہے چار رکعتوں کودو دو کرکے پڑھا جائے اور اکٹھی چار پڑھنے کا بھی جواز ہے۔ دونوں صورتوں کی وضاحت صحیح بخاری میں موجود ہے۔ ظہر کی پہلی چار رکعت اکٹھی پڑھنا: سوال: یہاں سعودی عرب میں اکثر لوگ ظہر کی پہلی چار رکعت اکٹھی نہیں پڑھتے بلکہ دو دو رکعت پڑھتے ہیں اور ہمیں تو کہتے ہیں کہ اکٹھی چار رکعت کا حدیث میں ثبوت نہیں۔ وضاحت فرمائیں۔
Flag Counter