Maktaba Wahhabi

691 - 829
(( لَا یُحَافِظُ عَلٰی صَلَاۃِ الضُّحٰی اِلَّا اَوَّابٌ۔ قَالَ وَ ھِیَ صَلَاۃُ الاَوَّابِینَ )) [1] یعنی ’’چاشت کی نماز پر مداومت صرف اﷲ کی طرف رجوع کرنے والا ہی کرتا ہے فرمایا۔ اسی کا نام اوابین کی نماز ہے۔‘‘ جب حدیث ضعیف ہے تو مسنون ہونا ثابت نہ ہوا۔ اگرچہ امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں کثرت ِ طُرق کی بناء پر فضائلِ اعمال میں قابلِ عمل سمجھا ہے۔ مغرب کی سنتوں کے بعد اوّابین: سوال: مغرب کے بعد اکثر احناف اور راقم بھی ماضی میں ۶ نوافل ’’ صلاۃ الاوابین‘‘ کے پڑھتا رہا ہے ان کی حدیث کی روشنی میں کیا حقیقت ہے؟ جواب: مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھنے والی روایت سخت ضعیف ہے۔ اس میں راوی عمر بن ابی خثعم کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’منکر الحدیث‘‘ قرار دیا ہے۔ اس روایت کے دیگر طُرق بھی ضعیف ہیں۔ اصلاً احادیث میں ’’ صلاۃ الاوابین‘‘ چاشت کی نماز کو کہا جاتا ہے۔ اس نام کا اطلاق اس نماز پر نہیں ہوا۔ نمازِ عشاء میں پہلے دو یا چار رکعت سنت ہیں؟ سوال: مولانا عبد السلام بستوی کی کتاب ’’تعلیم الاسلام‘‘ کی جلد نمبر۱،ص:۲۹۱ پر لکھا ہے کہ ’’نمازِ عشاء میں پہلے دو یا چار رکعت سنت ہیں۔‘‘ البتہ اس کا انھوں نے کوئی حوالہ نہیں دیا، کیا یہ صحیح ہے اور کس حوالے سے؟(سائل: ڈاکٹر عبید الرحمن چودھری)(۶ اپریل ۲۰۰۷ء) جواب: اس بارے میں کوئی صحیح حدیث میری نظر سے نہیں گزری۔ جمعہ کے بعد رکعات: سوال: آپ نے ’’الاعتصام‘‘ کی قریبی اشاعت میں تحریر فرمایا ہے کہ جمعہ کی نماز میں فرض کے بعد مسجد میں چار رکعت پڑھی جائیں۔ خواہ کوئی شخص خطبہ شروع ہونے کے بعد ہی آئے اور اس نے ’’تحیۃ المسجد‘‘ ہی ادا کی ہو۔ حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ یہ چار رکعت سنت ہیں یا دو رکعت سنت اور دو نفل؟ جواب: یہ سب نوافل( فرض سے زائد) ہیں۔ محدثین کے نزدیک تفریق کا تصور نہیں۔ تفریق کی اصطلاح حادث ہے، یعنی بعد میں فقہائے کرام کی ایجاد ہے۔ نوافل میں قرآن سے دیکھ کر پڑھنا: سوال: نوافل میں قرآن سے دیکھ کر پڑھنے کی اجازت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا غلام ان کے
Flag Counter