Maktaba Wahhabi

694 - 829
اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ، وَصَفَّنَا خَلفَہٗ۔ فَصَلّٰی رَکعَتَینِ)) [1] یعنی ’’اے عتبان! تو کہاں پسند کرتا ہے، کہ میں تیرے گھر میں تیرے لیے (تیری وجہ سے) نماز پڑھوں؟ عتبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی، اور ہمیں اپنے پیچھے صف میں کھڑا کیا۔ پھر دو رکعتیں پڑھیں۔‘‘ پھر نمازِ تراویح بھی از قسم نوافل ہے … نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو چند راتیں جماعت کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس بناء پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کتاب بلوغ المرام میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گیارہ رکعت والی روایت ’’صلوۃ التطوع‘‘ کے عنوان کے تحت نقل کی ہے۔ جب کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے کتاب التہجد میں ذکر کیا ہے اور بایں الفاظ باب قائم کیا ہے۔ (( بَابُ قِیَامِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بِاللَّیلِ فِی رَمَضَانَ، وَغَیرِہٖ )) (ج:۱، ص:۱۵۴) مذکورہ بالا دلائل سے نوافل کی باجماعت مشروعیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ لہٰذا آپ حضرات شب بیداری میں درس کے اختتام پر نوافل باجماعت ادا کرسکتے ہوں، تو جائز ہے، لیکن اس فعل کو طریقہ مسلوکہ نہیں بنانا چاہیے۔ خطرہ ہے، کہ کہیں ابتدع کے زمرہ میں داخل نہ ہوجائے۔ نمازی ’’تشہد‘‘ کے اخیر میں ہو، اور جماعت کھڑی ہو جائے: سوال: ((اِذَا اُقِیمَتِ الصَّلٰوۃ ))والی حدیث کی روشنی میں اگر ایک شخص تشہد اخریٰ میں بیٹھا ہوا ہے درود شریف اور مسنون دعا پڑھنا باقی ہے ، تواس دوران میں جماعت کھڑی ہو جاتی ہے تو کیا تشہد پڑھنے کے بعد سلام پھیر کر جماعت میں شریک ہو جائے تو کیا اُس کے نفل کامل ہوں گے یا وہ درود اور مسنون دعا پڑھ لے اسی طرح تو(( اِذَا اُقِیمَتِ الصَّلٰوۃُ)) والی حدیث کے خلاف تو نہیں ہو گا؟ جواب: اگر کوئی نمازی ’’تشہد‘‘ کے اخیر میں ہو، اور جماعت کھڑی ہو جائے، تو اذکار کو مکمل کرکے سلام پھیر کر جماعت کے ساتھ مل جائے۔ یہ فعل حدیث ((اذَا اُقِیمَتِ الصَّلٰوۃُ)) [2]کے منافی نہیں، کیونکہ شرع میں نماز کا اطلاق کم ازکم ایک رکعت پر ہے اور یہ کم ہے، لہٰذا جائز ہے۔ (ایضاً) چاررکعات سنت کی آخری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے بعد قرأت : سوال: چاررکعات سنت میں پچھلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے بعد اور قرأت بھی کی جا سکتی ہے ؟
Flag Counter