Maktaba Wahhabi

695 - 829
جواب: چار رکعات نوافل اور سنن کی صورت میں پچھلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے علاوہ بھی سورتوں کی قرأت کا جواز ہے۔ چنانچہ ’’صحیحین‘‘ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: (( یُصَلِّی أَربَعًا، فَلَا تَسئَل عَن حُسنِھِنَّ ، وَ طُولِھِنَّ ۔ ثُمَّ یُصَلِّی أَربَعًا۔ فَلَا تَسئَل عَن حُسنِھِنَّ، وَ طُولِھِنَّ )) [1] یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے چار رکعت پڑھتے ان کی کیفیت کے متعلق کچھ نہ پوچھو۔ کتنی اچھی اور کتنی لمبی ہوتی تھیں۔ پھر اس کیفیت کے ساتھ چار رکعت اور پڑھتے۔ ظاہر ہے چار رکعت لمبی تب ہی ہوں گی، جب فاتحہ کے ساتھ مزید سورتوں کو ملایا جائے۔ فرض اور سنتوں کی ادائیگی میں وقفہ : سوال: میں دکان بند کرکے ظہر کی نماز کے لیے مسجد میں جاتا ہوں فرض نماز ادا کرنے کے بعد سنتیں دکان پر ادا کرنے کے لیے آجاتا ہوں اور راستے میں کھانا کھانے کے بعد دکان پر آتا ہوں۔ بعض اوقات گاہکوں کو ادویات دینے کے بعد سنتوں کی ادائیگی کرتا ہوں یعنی فرض نماز اور سنتوں کی ادائیگی میں آدھ گھنٹے سے ایک گھنٹے تک کا وقفہ ہو جاتا ہے جو اب طلب بات یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا جائز ہے یا پہلے سنتیں ادا کروں اور پھرکھانا کھاؤں۔ یعنی فرضوں اور سنتوں میں زیادہ لمبا وقفہ نہ کروں یا پھر سنتیں مسجد میں ہی ادا کر آؤں۔ (جب کہ افضل یہ ہے کہ سنتیں اور نفل گھروں (دکانوں) میں ادا کریں)اور بعض اوقات مسجد میں جاتے ہی جماعت کھڑی ہو جاتی ہے اس طرح پہلی چار سنتیں بھی رہ جاتی ہیں۔ ان کو بھی ادا کرنا ہوتا ہے توکیا ایسا معمول بنا لینا درست ہے۔؟ جواب تفصیل سے دیں۔ جواب: عام حالات میں فرض اور سنتوں کی ادائیگی میں زیادہ وقفہ نہیں ہونا چاہیے۔ کسی وقت ہو جائے تو کوئی حرج نہیں، کوشش کریں کہ دکان پر پہلے سنتیں پڑھیں۔ پھر کھانا کھائیں یا پھر مسجد میں ہی پڑھ لیا کریں۔ پہلی سنتیں کسی وقت رہ جائیں، تو بعد میں ادا ہو سکتی ہیں لیکن عادت نہیں بنانی چاہیے کیونکہ اصل ان کا محل پہلے ہی ہے۔ اذان سنتے ہی کاروبارِ زندگی چھوڑ دیا کریں اسی میں خیروبرکت ہے۔ سنن ابو داؤدب باب ’لَغوِ الیَمِینِ‘ کے تحت ابراہیم الصائغ کے بارے میں لکھا ہے: (( کَانَ اِذَا رَفَعَ المِطرَقَۃَ فَسَمِعَ النِّدَائَ سَیَّبَھَا )) [2]
Flag Counter