Maktaba Wahhabi

726 - 829
جواب: کوشش کرنی چاہیے کہ نمازِ تراویح کو طول قیام (لمبا قیام) کے ساتھ پڑھا جائے۔ اگر کسی وقت بعد میں نوافل پڑھے جائیں تو جواز ہے۔ نمازِ تراویح اور نمازِ وِتر کے علاوہ مزید نوافل یا تہجد ادا کی جا سکتی ہے؟ سوال: کیا رمضان المبارک میں تراویح اور وِتر کے علاوہ مزید نوافل یا تہجد ادا کی جا سکتی ہے؟ جواب: مسئلہ ہذا میں اہلِ علم کا اختلاف ہے۔ بعض عدم ِ جوا زکے قائل ہیں جب کہ دیگر جواز کے قائل ہیں۔ بظاہر جواز ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک صحابیٔ رسول نے جنت میں آپ کی ہمسائیگی کا سوال کیا تھا، تو آپ نے انھیں فرمایا:((فَاَعِنِّی عَلٰی نَفسِکَ بِکَثرَۃِ السُّجُودِ)) [1] نما زِ تراویح دراصل تہجد ہی ہے۔ علیحدہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ آٹھ تراویح کے بعد نفل نماز پڑھنا: سوال: رمضان المبارک کی طاق رات۲۳ویں شب کو شب بیداری اور تلاش لیلۃ القدر کے اشتیاق میں مسجد میں معتکفین اور بعض اہل محلہ نے آٹھ رکعات نمازِ تراویح ادا کرنے کے بعد کچھ دیر توقف کیا اور پھر دوبارہ قیام اللیل کی نیت سے باجماعت نوافل ۲۲ رکعات اور تین وتر ادا کئے۔ اگلے روزانہوں نے سے بھی آئندہ طاق رات ساتھ رہنے پر اصرار کیا۔ تومیں نے اُنہیں کہا کہ قیام اللیل، تہجد اور تراویح ایک ہی عبادت کے مختلف نام ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاحیات مابین نمازِ عشا و فجر گیارہ سے زائد رکعات ادا نہیں فرمائیں لہٰذا اسی پر اکتفا کرنا اولیٰ اور اوثق ہے،نیزمسنون عمل بہتر ہے ایک کثیر مگر غیر ثابت شدہ عمل سے۔ ساتھیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نوافل کی کوئی تعداد مقرر نہیں اوریہ کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہ سے چالیس رکعات تک ثابت ہیں۔ میرا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی انفرادی طور پر مزید ادا کرنا چاہے تو بات اور ہے مگر جہاں تک باجماعت قیام اللیل کی بات ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم (جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم )سے زائد ثابت نہیں ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں مسئلہ کی وضاحت فرما دیں نیز ۴۰ رکعات تک والی روایات کی اسنادی حیثیت بھی واضح فرما دیں۔ جواب: زیادہ محتاط مسلک یہ ہے کہ صرف ثابت شدہ گیارہ رکعات پر اکتفاکیا جائے اور تعداد میں اضافہ کے بجائے ان کو لمبے قیام کی صورت میں ادا کیا جائے جس طرح کہ احادیث سے ثابت ہے۔البتہ وتر کے
Flag Counter