Maktaba Wahhabi

738 - 829
ہے، کہ ’’فصل‘‘ کیا جائے، یعنی دو رکعت پر سلام پھیر کر، تیسری علیحدہ پڑھی جائے۔ تین رکعت اکٹھی کی صورت میں درمیانی تشہد نہ پڑھا جائے۔ کیونکہ اس سے نمازِ مغرب کے ساتھ مشابہت پید ا ہو جاتی ہے، جس کی حدیث میں ممانعت آئی ہے۔ کیا وتروں کی دوسری رکعت کے بعد تشہد ہے؟نیز دعائے قنوت سے پہلے رفع الیدین کا حکم: سوال: نماز وِتر کے دوران دوسری رکعت میں عام نمازوں کی طرح تشہد پڑھنا چاہیے یا کہ نہیں نیز اس میں دعاے قنوت پڑھنے کا طریقہ بھی بیان کریں۔ جواب: وتروں کی دوسری رکعت میں تشہد نہیں، کیونکہ نبی صلي الله عليه وسلم نے وتروں میں مغرب کی مشابہت سے منع فرمایا ہے۔ ’’دعاے قنوت‘‘ تیسری رکعت میں رکوع سے پہلے پڑھی جائے، تو أولی ہے اور رفع یدین کرنے کا اختیار ہے۔ بطورِ نص نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع یدین ثابت نہیں۔ البتہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال میں ثبوت ملتا ہے۔ ملاحظہ ہو:(قیام اللیل) ایک رات میں دو دفعہ وِتر پڑھنا: سوال: کیا ایک رات میں دو دفعہ وِتر پڑھے جا سکتے ہیں، خاص کر آج کل آخری عشرہ میں تمام مساجد میں قیامُ اللیل ہوتا ہے۔ اگر انسان کسی وجہ سے پہلے بھی وِتر ادا کر چکا ہو تو کیا دوبارہ و تر پڑھے یا چھوڑ دے؟ نیز وِتر کے بعد جو دو رکعت ادا کی جاتی ہیں۔(نفل کے طور پر) اس کا کیا جواز ہے؟ جواب: صحیح احادیث کے مطابق وِتر موصول(اکٹھے) اور مفصول (علیحدہ) دونوں طرح پڑھنے درست ہیں۔[1] مسئلہ ہذا میں اہلِ علم کا اختلاف ہے۔ بعض نقض(ایک رکعت نفل پڑھ کر پہلے پڑھے ہوئے وِتر کو جفت بنانا، اورپھر دوبارہ وِتر پڑھنے)کے قائل ہیں۔ ان میں سے امام اسحاق بن راہویہ ہیں اور دوسرا گروہ عدمِ نقض(پہلے وِتر کو جُفت نہ بنانا مذکورہ وضاحت کے برعکس) کا قائل ہے۔ یہ مذہب سفیان ثوری، مالک بن انس، احمد اور عبداﷲ بن مبارک رحمہما اللہ کا ہے۔ اس کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وَ ھٰذَا اَصَحُّ، لِانَّہٗ قَد رُوِیَ مِن غَیرِ أَوجُہٍ، اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صَلّٰی بَعدَ الوِترِ))[2]
Flag Counter