Maktaba Wahhabi

739 - 829
’’یہی مسلک زیاہ صحیح ہے۔ اس لیے کہ کئی طرق سے وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وِتر کے بعد نماز پڑھی ہے۔‘‘ اور صاحب’’ تحفہ ‘‘فرماتے ہیں: (( وَ ھٰذَا ھُوَ المُختَارُ عِندِی۔ وَ لَم اَجِد حَدِیثًا مَّرفُوعًا صَحِیحًا، یَدُلُّ عَلٰی ثُبُوتِ نَقضِ الوِترِ)) ( میرے نزدیک یہی بات درست ہے۔ کیونکہ میں نے کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں پائی جو وِتر کو توڑنے کرنے پر دلالت کرتی ہو۔) واﷲ تعالیٰ أعلم( صفحہ مذکور) وتر کے بعد نوافل جائز ہیں۔ قولی حدیث میں ہے: ((اِجعَلُوا آخِرَ صَلٰوتِکُم بِاللَّیلِ وِترًا )) [1] یعنی ’’رات کی آخری نماز وِتر بناؤ۔‘‘ اور فعلی حدیث میں ہے: (( ثُمَّ یُوتِرُ، ثُمَّ یُصَلِّی رَکعَتَینِ، وَ ھُوَ جَالِسٌ)) [2] یعنی ’’پھر آپ وِتر پڑھتے۔ پھر دو رکعتیں بیٹھے ہوئے ادا کرتے۔‘‘ فعل میں چونکہ خاصے کا احتمال ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ وِتر کے بعد نوافل نہ پڑھے جائیں اور اگر کوئی پڑھ لے تو جائز ہے۔ کیا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی سہولت کے لیے وِتر نوافل میں ضم کردیے ؟ سوال: بعض علماء کا کہنا ہے کہ وِتر صرف ایک رکعت ہی ہے ، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی سہولت کے لیے بعض اوقات وِتر نوافل میں ضم کردیا کیا یہ قول درست ہے؟ جواب: صحیح مسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے:((الوِترُ رَکعَۃٌ مِن اٰخِرِ اللَّیلِ)) [3] یعنی ’’وِتر ایک رکعت ہے، آخر رات کو۔‘‘ دوسری روایت میں ہے، کہ ’’ وِتر حق ہے ہر مسلمان پر ، پس جو شخص وِتر
Flag Counter