Maktaba Wahhabi

740 - 829
پانچ رکعت پڑھنا چاہے، وہ پڑھے اور جو کوئی وِتر تین رکعت پڑھنا چاہے، پڑھے اور جو کوئی وِتر ایک رکعت پڑھنا چاہے۔ وہ پڑھے‘‘ اس سے معلوم ہوا، کہ وِتر پانچ بھی ہیں۔ تین بھی ہیں اور ایک بھی۔ جملہ صورتوں کا آدمی کو اختیار ہے، سب کا نام وِتر ہے ، صرف ایک پر اصرار کرنا درست نہیں۔ ’’تورُّک‘‘ دو رکعتی یا ایک رکعتی نماز کے قعدہ میں ؟ سوال: فجر کی نماز میں دوسری رکعت کے بعد اور ایک وِتر پڑھتے ہوئے قعدہ میں تورک اختیار کرنا ہوگا یا ایک پاؤں کھڑا کرکے بائیں پاؤں پر بیٹھیں گے جیسے دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھتے ہیں؟ جواب: مسئلہ ہذا میں اگرچہ اہلِ علم کا اختلاف ہے، لیکن ظاہریہ ہے کہ دو رکعتی یا ایک رکعتی نماز کے قعدہ میں بھی ’’تورک‘‘ ہے۔ کیونکہ حدیث کے الفاظ ((فی الرکعۃ الأخیرۃ)) عام ہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔[1] رات کو وِتر رہ جائیں تو: سوال: آدمی کے رات کو وِتر رہ جائیں اور صبح بھی دیر سے اُٹھے تو کتنے وِتر پڑھے؟ جواب: حسب موقعہ ایک رکعت پر بھی اکتفا ہو سکتا ہے۔ سوال: اگر کسی کے وِتر رہ جائیں تو وہ کب ادا کرے۔ نماز فجر سے پہلے یا سورج نکلنے کے بعد؟ جواب: جب چاہے قضائی دے لے ۔ کسی وقت نہ بھی دے سکے تو کوئی حرج نہیں۔ وتر کی قضائی : سوال: نمازِ وتر کی قضا دی جاسکتی ہے یعنی کیا آدمی اسے نمازِفجر کے فوراً بعدپڑھ سکتا ہے جبکہ وہ نمازِ تہجد کے لئے نہ اُٹھ سکا ہو؟ جواب: اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ دن کے وقت بارہ رکعت پڑھ لی جائیں۔ چنانچہ مشکوٰۃ شریف میں حدیث ہے کہ جب کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیماری یا غلبہ نیند کی وجہ( نماز تہجدکے لئے نہ اٹھ سکتے) تو دن کو بارہ رکعت پڑھ لیا کرتے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے المنتقی میں اس حدیث پر ان الفاظ سے عنوان قائم کیا ہے: باب قضاء بالفوت من الوتر و السنن الراتبۃ والاوراد ’’وتر،سنتوں اور وظائف کی قضا کا باب‘‘
Flag Counter