Maktaba Wahhabi

743 - 829
سوال :کیا ایک رکعت پڑھ کر سجدۂ سہو کرے یا ویسے نوافل ادا کرے؟ جواب: اس بارے میں اکثر اہلِ علم کا مسلک یہ ہے، کہ آدمی جتنے نوافل وغیرہ پڑھنے چاہے پڑھ سکتا ہے۔ نقضِ وِتر کی ضرورت نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، کہ (( لَا وِترَانِ فِی لَیلَۃٍ)) [1] یعنی ’’ایک رات میں دو دفعہ وِتر نہ پڑھے جائیں۔ ‘‘ روایت ِ ہذا حسن درجہ کی ہے جس کو امام احمد، ترمذی ،ابوداؤد اور نسائی رحمہما اللہ وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ بعض اہل علم نقض وتر کے قائل ہیں کہ وتر کے ساتھ ایک رکعت ملا کر اسے جفت بنا لیا جائے بعد ازاں جتنی نماز پڑھنا چاہے پڑھ لے آخر میں پھر وتر پڑھ لے لیکن سجود کی ضرورت نہیں… پہلا مسلک راجح ہے کیونکہ نبی اکرم صلي الله عليه وسلم سے کئی روایتوں سے ثابت ہے کہ آپ نے وتر کے بعد نماز پڑھی ہے۔ علامہ مبارکپوری شرح ترمذی میں فرماتے ہیں: ’’میرے نزدیک مختار بات یہ ہے کہ پہلے پڑھے ہوئے وتر کو توڑا نہ جائے کیونکہ مجھے مرفوع کوئی صحیح روایت نہیں مل سکی جس میں نقض و تر کا ثبوت ملتا ہو۔ امام ترمذی نے بھی اپنی جامع میں اسی مسلک کو اصح قرار دیا ہے اور صاحب مرعاۃ المفاتیح کے نزدیک بھی یہی مذہب راجح ہے، ملاحظہ ہو : المرعاۃ:۲،؍۲۰۴۔ امام دعائے قنوت جہراً پڑھے یاسِرّی، مقتدی صرف آمین کہے یا دعا بھی کر سکتا ہے ؟ سوال: ہم نمازِ تراویح کے بعد وِتر باجماعت ادا کرتے ہیں۔ حنفی دعاے قنوت سراً پڑھتے ہیں۔ امام کو دعاے قنوت جہراً پڑھنی چاہیے یا سراً۔ مقتدی صرف آمین کہیں گے یا دعا بھی کر سکتے ہیں؟ جواب: امام قنوت اونچی آواز سے پڑھے۔ حضرت حسن کا بیان ہے۔ ابی بن کعب قنوت لوگوں کو سناتے تھے۔ الفاظ یوں ہیں: (( حَتّٰی یُسمِعَھُمُ الدُّعَائَ۔ )) [2] امام کی دعا کے سماع کی صورت میں مقتدی صرف آمین کہے اور عدمِ سماع کی صورت میں دعا پڑھے۔ ’’قیام اللیل‘‘ میں امام احمد رحمہ اللہ سے اس طرح نقل ہوا ہے اور امام اسحاق کا کہنا ہے۔ (( یَدعُوا الاِمَامُ وَ یُؤَمِّنُ مَن خَلفَہٗ))
Flag Counter