Maktaba Wahhabi

747 - 829
پھر یہی بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ جن کے متعلق حنفیہ بڑے شدُّ و مد سے مسئلہ ’’بیس تراویح‘‘ میں (بفرضِ صحت) فعل عمر رضی اللہ عنہ کو حجت تسلیم کرتے ہوئے تائید میں حدیث: ((عَلَیکُم بِسُنَّتِی وَ سُنَّۃِ الخُلَفَائِ الرَّاشِدِینَ)) [1]پیش کیا کرتے ہیں۔ مقامِ غور ہے، کہ اس قاعدے کا انطباق تو زیرِبحث مسئلہ پر بھی ہوتا ہے۔ پھر اس سے انکار کیوں؟ امید ہے جذبات کی رَو سے بالا تر ہو کر حنفیہ موضوعِ بحث مسئلہ پر غور فرمائیں گے۔ جہاں تک اصل مسئلہ کا تعلق ہے ، سو اس بارے عرض ہے، کہ مذکورہ آثار کی بناء پر اگر کوئی شخص وِتر کی دعا قنوت میں ہاتھ اٹھا لے تو جائز ہے اور اگر کوئی نہ اٹھائے، تو اس پر بھی نکیر نہیں۔ مسئلہ ہذا میں دونوں پہلوؤں پر عمل کرنا درست ہے۔ جسے کوئی چاہے اختیار کرے، اگرچہ جانبِ رجحان عدمِ رفع ہے۔(واللّٰہ اعلم بالصواب و علمہ أتم) سوال: ہمارے شہر کا مونکی میں کافی عرصہ سے یہ مسئلہ اختلاف کا باعث ہے کہ نمازِ وتر میں رکوع سے پہلے یا بعد میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا کیسا عمل ہے ؟ آیا ہم اس کو بدعت کہہ سکتے ہیں کہ نہیں؟ اگر بدعت نہیں تو کتب ِ حدیث سے اس کے جواز پر مفصل دلائل دے کر شکریہ کا موقع دیں۔(السائل:منیر احمد وقار کامونکے ضلع گوجرانوالہ) (۱۹ اگست ۱۹۹۴ء) جواب: قنوتِ وِتر میں ہاتھ اٹھانا بعض سلف صالحین سے ثابت ہے۔ امام محمد بن نصر مروزی نے’’قیام اللیل‘‘ میں باقاعدہ بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:’’بَابُ رَفعِ الاَیدَی فِی القُنُوتِ‘‘ پھر اس کے تحت آثار و اقوال نقل کیے ہیں، جو ’’رفع الأیدی‘‘ پر نص ہیں۔ جہاں تک اصل مسئلہ کا تعلق ہے، سو اس بارے میں عرض ہے، کہ مذکورہ آثار کی بناء پر اگر کوئی شخص وِتر کی دعاے قنوت میں ہاتھ اٹھالے، تو جائز ہے اور اگر کوئی نہ اٹھائے، تو اس پر بھی نکیر نہیں۔ مسئلہ ہذا میں دونوں پہلوؤں پر عمل کرنادرست ہے، جسے کوئی چاہے اختیار کرے۔ لیکن رفع کو بدعت قرار دینا مشکل امر ہے۔ اگرچہ جانب رجحان عدمِ رفع ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!( الاعتصام ۲۴ ذوالقعدہ ۱۴۱۴ھ) قنوت ِ نازلہ اور قنوتِ وِتر میں دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر ملنا : سوال: قنوت ِ نازلہ اور قنوتِ وِتر میں دعا کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر ملنا چاہیے یا نہیں؟ جواب: ’’قنوتِ نازلہ ‘‘یا ’’غیر نازلہ‘‘ میں ہاتھوں کو چہرے پر ملنا بالعموم کسی صحیح حدیث میں ثابت نہیں۔
Flag Counter