Maktaba Wahhabi

748 - 829
دعائے قنوت ترک کرنا اور رکوع سے پہلے دعا کرنا: سوال: عشاء کے بعد ایک شخص ایک وِتر پڑھتا ہے اس میں ’’دعاے قنوت‘‘ کبھی پڑھتا ہے اور کبھی نہیں پڑھتا اور جب دعا قنوت پڑھتا ہے تو سورہ فاتحہ اور ایک اور سورت کی تلاوت کرنے کے بعد ہاتھ باندھے باندھے ہی پڑھ لیتا ہے، اور پھر رفع یدین کرکے رکوع میں چلا جاتا ہے۔ کیا اس کا یہ عمل قرآن و حدیث کے مطابق ہے؟ ناصر الدین البانی صاحب نے اپنی کتاب ’’صلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘میں رکوع سے پہلے دعاے قنوت کا لکھا ہے اور ہاتھ اٹھانے کا ذکر نہیں کیا۔نیز لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے کبھی کبھی پڑھتے تھے اور جمہور علماء کے مطابق یہ واجب نہیں ہے۔ جواب: قنوتِ وِتر میں یہ ( ہاتھ نہ اٹھانے)کا عمل درست ہے اور اگر کوئی شخص ہاتھ اٹھاتا ہے، تو محض بعض آثار کی بناء پر جو ’’قیام اللیل‘‘ مروزی وغیرہ میں منقول ہیں۔ اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نصِ صریح ثابت نہیں۔قبل از رکوع قنوت ِ وِتر کرنا درست ہے۔ علامہ البانی نے ہاتھ اٹھانے کا ذکر اس لیے نہیں کیا، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نص صریح میں ثابت نہیں۔نیز علامہ موصوف نے کبھی کبھی ’’دعاے قنوت‘‘ پڑھنے کا ذکر اس لیے کیا ہے، کہ عموم بلویٰ(عام پیش آنے والی چیز) کے باوجود عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل نہیں کی، جو اس کے عدمِ استمرار (ہمیشہ نہ ہونے )کی دلیل ہے۔ قنوتِ وتر رکوع سے پہلے یا بعد میں؟ سوال: قنوت ِ وِتر قبل الرکوع افضل ہے یا بعد الرکوع، نیز قبل الرکوع میں ہاتھ نہ اٹھانا کیسا ہے؟ جواب: ’’قنوت‘‘ قبل الرکوع افضل ہے۔ ہاتھ اٹھانارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ البتہ بعض آثار میں اٹھانے کا ذکر ہے۔ ملاحظہ ہو! ’’قیام اللیل‘‘ ان کی بناء پر کوئی اٹھا لے تو نکیر نہیں۔ قنوت رکوع سے پہلے پڑھنا: سوال: آپ نے کسی گزشتہ شمارہ میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ قنوت قبل الرکوع پڑھنا افضل ہے اور جب ایک مقامی عالم سے دریافت کیا گیا تو اس نے بھی یہی فرمایا تھا اب سوال یہ ہے کہ اہلِ حدیث اس مسئلہ میں غیر افضل پر عمل کیوں کرتے ہیں؟ جواب: جو لوگ غیر افضل پر عامل ہیں، ان کے نزدیک یا تو دو نوں جہتیں (صورتیں) برابر ہیں یا پھر
Flag Counter