Maktaba Wahhabi

749 - 829
افضلیت کا انشراح نہیں۔ بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک قبل از رکوع قنوتِ وِتر پڑھنا متعین ہے۔ ملاحظہ ہو! ’’ارواء الغلیل‘‘ جب کہ صاحب ’’مرعاۃ المفاتیح‘‘ کے نزدیک دونوں طرح کا جواز ہے۔ لیکن جانبِ رجحان قبل از رکوع ہے۔(۲؍۲۱۴) میرا میلان بھی اسی طرف ہے اور ہمارے شیخ محدث روپڑی بعد از رکوع کے قائل ہیں ۔(فتاویٰ اہلِ حدیث :۲؍۲۹۶) کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعائے قنوت رکوع سے پہلے ثابت ہے؟ سوال: آپ نے ایک دو مرتبہ الاعتصام میں جواباً تحریر فرمایا تھا کہ رکوع سے قبل دعاے قنوت افضل ہے اور میں نے اس کی تصدیق بھی کر لی کہ واقعی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عرصہ تک قبل از رکوع دعا فرماتے رہے ۔ کیا احناف کی طرح رفع یدین کرکے یا ہاتھ باندھے ہی دعاے قنوت پڑھنی چاہیے؟ اور اہلِ حدیث حضرات کبھی بھی رکوع سے قبل نہیں پڑھتے۔؟ جواب: واقعی دعاے قنوت قبل از رکوع افضل ہے، اس پر عمل ہونا چاہیے۔ البتہ حنفیہ کا طریقہ دعا صحیح احادیث سے ثابت نہیں۔’’قنوت‘‘ میں رفع یدین مرفوعاً ثابت نہیں۔ البتہ آثار میں وارد ہے۔ چنانچہ مقتدی جس حالت میں ہے، اسی میں دعا پڑھ لے۔ مزید تصرف کی ضرورت نہیں۔ ’’دعاے قنوت‘‘ رکوع سے پہلے پڑھنی چاہیے؟ سوال: کیا ’’دعاے قنوت‘‘ رکوع سے پہلے اسی طرح ہاتھ باندھے ہوئے پڑھنی چاہیے ۔ سورہ فاتحہ اور دوسری سورہ کے بعد اسی طرح دعاے قنوت شروع کر دیں یا سورہ اور دعاے قنوت میں فصل کے لیے ’’اللہ اکبر‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔؟ جواب: ’’قنوت وِتر‘‘ میں رفع یدین اور تکبیر کہنا کسی مرفوع متصل روایت میں ثابت نہیں۔ البتہ بعض سلف ابن مسعود، عمر، انس، ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کے افعال سے ثابت ہے۔ لہٰذا اصل یہ ہے، کہ موجود حالت میں ہی قنوت پڑھ لی جائے۔ آثار کی پیروی میں دوسری شکل کا بھی جواز ممکن ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! ’’مرعاۃ المفاتیح‘‘ (۲؍۲۱۹) دعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھیں توفاتحہ یا سورۃ کے بعد رفع الیدین کرنا چاہیے؟ سوال: وِتر میں دعاے قنوت قبل از رکوع پڑھنا بہتر ہے ، تو کیا فاتحہ اور سورۃ کے بعد رفع الیدین کر سکتے ہیں جیسا کہ احناف کرتے ہیں؟
Flag Counter