Maktaba Wahhabi

758 - 829
قنوت نازلہ پڑھنے کی کوئی خصوصی مدت مقرر ہے؟ سوال: قنوت نازلہ پڑھنے کی کوئی خصوصی مدت مقرر ہے؟ کیا صرف اجتماعی مصائب پر قنوت پڑھنی چاہیے یا کوئی شخص اپنے ذاتی مصائب پر بھی قنوت نازلہ پڑھ سکتا ہے؟ جواب: جب فتنہ شدت میں ہو، تو ’’قنوتِ نازلہ‘‘ پڑھی جائے۔ اس کی کوئی مدت مقرر نہیں، لیکن اگر فتنہ مسلسل جاری ہو، تو پھر ’’قنوت نازلہ‘‘ ترک کر دینی چاہیے۔ عام حالات میں اجتماعی مصائب پر قنوت پڑھی جائے۔ احادیث میں اس کی تصریح ہے۔ ذاتی مشکلات و مصائب کی نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( أَنَّ المَطلُوبَ مِن قُنُوتِ النَّازِلَۃِ اَن یُّشَارِکَ المَأمُومُ الاِمَامَ، وَ لَو بِالتَّامِینِ۔ ثُمَّ اتَّفَقُوا عَلٰی اَنَّہٗ یَجھَرُ بِہٖ )) [1] ’’قنوتِ نازلہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مقتدی بھی امام کی دعا میں شریک ہوجائیں، خواہ آمین، کی صورت میں ہی ہو۔ اہلِ علم کا اتفاق ہے، کہ ’’قنوت‘‘ بلند آواز میں ہو۔‘‘ کیاقنوت ِ نازلہ منسوخ ہوچکی ہے؟ سوال: تفسیر ابن کثیر میں قصہ احد کے ضمن میں ذکر کردہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ ﴿ لَیسَ لَکَ مِنَ الأمرِ شَیئٌ﴾ (آل عمران:۱۲۸) کے نزول کے بعد قنوتِ نازلہ ترک کر دی تھی، تو کیا آج بوقتِ ضرورت نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھی جا سکتی ہے یا نہیں؟ وضاحت فرمائیں؟ جواب: جمہور کے قول کے مطابق ’’غزوۂ احد‘‘ ماہِ شوال سن تین ہجری میں ہوا ہے۔ جب کہ واقعہ ’’بئرمعونہ‘‘ سن چار ہجری کے شروع میں پیش آیا۔ صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے: ’’وَذٰلِکَ بَدئُ القُنُوتِ‘‘ ’’قنوت ‘‘کا آغاز اس واقعے کی وجہ سے ہوا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا، کہ آیت ﴿ لَیسَ لَکَ مِنَ الأمرِ شَیئٌ﴾ (آل عمران:۱۲۸) کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’غزوۂ احد‘‘ میں زخمی ہونے سے ہے۔ جس طرح کہ روایات میں بھی تصریح موجود ہے، کہ یہی قصہ آیت کا سبب نزول ہے۔ جن روایات میں آیت مذکورہ کی شانِ نزول قصہ ’’بئر معونہ‘‘ یا ’’قصۂ رعل‘‘ و’’ذکوان‘‘ کو بتایا گیا ہے۔ وہ درست نہیں، کیونکہ یہ واقعات اُحد کے بعد پیش آئے ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے، کہ سبب
Flag Counter