Maktaba Wahhabi

764 - 829
صبح کی دو سنتیں تحیۃ المسجد کی متبادل ہو سکتی ہیں؟ سوال: صبح کی اذان کے بعد سنتوں سے پہلے دو رکعت نفل نماز ’’تحیۃ الوضوء‘‘ یا ’’تحیۃ المسجد‘‘ کا کوئی ثبوت ہے ، کوئی اگر پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ جواب: صبح کی اذان کے بعد دو رکعتوں کی ادائیگی ’’تحیۃ المسجد‘‘ وغیرہ سے بھی کافی ہو جاتی ہے۔ لہٰذاعلیحدہ پڑھنے کی ضرورت نہیں یہ اس طرح ہے جیسے ’’حَجۃُ الودَاع‘‘ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں داخل ہو کر طواف شروع کردیا تھا۔ ’’تحیۃ المسجد‘‘ کی نماز بھی اس میں شامل ہو گئی تھی۔ البتہ اگر کوئی شخص صبح کی دو رکعتیں گھرمیں ادا کرکے مسجد میں آتا ہے اور اقامتِ صلوٰۃ میں ابھی کچھ وقفہ ہے تو وہ عمومِ حدیث((اِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ المَسجِدَ…))[1] کی بناء پر دو رکعت پڑھ کر بیٹھے۔ اگر کہا جائے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فجر کی اذان کے بعد قبل از فرائض صرف دو رکعت ثابت ہیں۔ (تحیۃ المسجد کے نوافل کا جواز اس پر اضافہ ہو گا۔ جو درست نہیں) اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اس صورت میں ہے جب ’’انشَائً ‘‘ یعنی مسجد میں بیٹھا ہوا کھڑے ہوکر نوافل پڑھنے لگ جائے۔ لیکن اگر سببی طور پر ادا کیے جائیں تو پھر جائز ہے، جیسے باہر سے آنے والا ’’تحیۃ المسجد‘‘ ادا کرتا ہے۔ (واللّٰہ اعلم بالصواب) فجر کی دو سنتیں گھر میں ادا کرنے والا مسجد میں تحیۃ المسجد ادا کرے گا؟ سوال: جب آدمی صبح کی سنتیں گھر میں پڑھ کر مسجد کو چلا جائے اور جماعت کھڑی ہونے میں ابھی ٹائم باقی ہو تو کیا آدمی تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ مفصل جواب ارشاد فرمائیں۔ جواب: صبح کی سنتیں آدمی گھر میں پڑھ کر آئے اور مسجد میں جماعت کھڑی ہونے میں ابھی کچھ وقت ہو تو عمومِ حدیث ((اِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ المَسجِدَ فَلَا یَجلِس حَتّٰی یُصَلِّی رَکعَتَینِ)) [2] ’’تم میں کوئی شخص جب مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت ادا کرے، کی بناء پر ’’تحیۃ المسجد‘‘ پڑھنی چاہیے‘‘ اور جس حدیث میں منع ہے اس سے مقصود انشائی(بلاسبب) نماز ہے۔ تاہم سببی نماز پڑھنی چاہیے۔ تحیۃ المسجد اوقاتِ مکروہ میں ادا کرنا : سوال: تحیۃ المسجد اوقاتِ مکروہ میں بھی پڑھی جاسکتی ہے؟
Flag Counter